باؤلے کتے

اتوار 22 جون 2014

Rauf Uppal

رؤ ف اُپل

پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے سرکار ی ٹیمیں گلی محلوں میں جاکر آوارہ کتوں کو ڈھونڈا کرتی تھیں ، کوئی بھی آوارہ کتا نظر آجاتا تو اسے فائر کر کے مار دیا جاتا۔ ۔ پھر مرے ہوئے کتے کو گاڑی میں ڈال کر لے جاتے اور زمین میں گھڑا کھود کر دفن کر دیتے۔ ۔رفتہ رفتہ سرکاری موبائل ٹیموں کی ذمہ داریا ں تبدیل ہوتی گئیں اور ان کتوں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری ختم کر دی گئی ۔

۔اب ان موبائل ٹیموں کی ذمہ داری صرف گند کچرا اٹھانا رہ گیا۔ ۔ کتوں کی ہلاکت کی ذمہ داری بے ہنگم ٹریفک نے لے لی ۔ ۔ہما ری بے ہنگم ٹریفک اور آوارہ اندھے کتوں کی روڈ کراسسنگ وہ واحد طریقہ رہ گیا جس وجہ سے کتوں کی تعداد میں اضافہ کنٹرول رہا۔ ۔اب صورتحال اور تبدیل ہوگئی اور ان ٹیموں کی ڈیوٹی سے ان مرے ہوئے کتوں کو اٹھانا بھی ختم کردیا گیا ۔

(جاری ہے)

۔ اس فیصلے سے گلی محلوں اورسڑکوں پر گندکی بو اور تعفن میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ ۔ مرے کتوں کو کوئی بھی ادارہ یا فرد اٹھاکر سائیڈ پہ کر نے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا۔ ۔ پھر راہ گیر جانیں یا مردہ جانور ۔ ۔ کوے چیلیں کھا جائیں تو کھا جائیں ، مردہ جانور پڑا پڑا سڑ جائے یا پورے محلے کو بیمار کرجائے کوئی نوٹس لینے والا نہیں ۔ ۔مین سڑک (شاہراہ) پر تو کوئی بھی مردہ جانور بار بار کچلا جانے کی وجہ سے نسبتا جلدی ڈسپوز ہوجاتا ہے مگر زیادہ مسئلہ ہوتاہے عام آبادی اور محلوں میں۔

۔ ۔ ۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ سرکاری موبائل ٹیمیں ان کتوں کو کیوں ہلاک کیا کرتی تھیں، اس کی واحد وجہ ان کتوں سے انسانوں کو نقصان سے بچانا مقصود تھا، باؤلے آوارہ کتے ان کا شکار ہوا کرتے تھے ۔ ۔ ان کی شکایات جب اس ادارے کو ملتی یہ ان کے خلاف فوری ایکشن لیتے اور موقع پر پہنچ کر ان کو ٹھکانے لگا دیتے ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کتے مہذب ہوتے گئے اور ان کا انسانوں کو نقصان پہنچانے کا عمل کم ہوتا گیا۔

۔ گزشتہ کئی سالوں سے میں نے خود ایسے واقعات بہت کم سنے(انسانوں کا انسانوں کونقصان پہنچانے کی نسبت)، جب کسی کتے نے کسی راہ گیر کو، کسی عورت یا بچے کو نقصان پہنچایا ہو۔ ۔ چند دن پہلے ایک واقعہ ہمارے محلے کی مسجد میں پیش آیا جب ایک آوارہ کتا مسجد میں گھس آیا اور دو نمازیوں کو کاٹ کر زخمی کر دیا۔ ۔ محلے والوں نے اس کتے کو گھیر لیا اور ڈنڈے مار مار کر ثواب حاصل کر لیا۔

۔ زخمیوں کو بروقت علاج مہیا کرکے بچا لیا گیا۔ ۔یا کوئی اکا دکا واقعہ اخبار میں پڑنے کو مل جاتا ہے۔ ۔ کتوں کا کاٹنا رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا ۔ ۔ ان میں سے کچھ جنگلوں کا رخ کرگئے مگر جو کتے آبادیوں میں رہ گئے محذب ہوتے گئے ۔ ۔۔۔ مگر رفتہ رفتہ ان کی چھوڑی ہوئی یہ صلاحیت کچھ انسانوں میں پروان چڑھتی گئیں۔ ۔ انسانوں کا انسانوں کو کاٹنے کا عمل معاشرے میں پروان چڑھا۔

۔ہر روز کسی گلی ، کسی محلے میں ، کسی عورت ، ماں ، بہن یا بیٹی کے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں اضافہ ہوتا رہا ۔ ۔ رفتہ رفتہ ہم اس منزل کو پہنچ گئے جہاں سے کتوں نے مہذب ہونا شروع کیا تھا۔ ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی ،اب ہمارے حالات اس سطح سے بد تر چلے گئے جہاں کسی جانور نے کبھی جانے کا سوچا بھی ناں ہوگا۔ ۔ روزانہ ریپ کے بڑھتے واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ معصوم انسانوں کو نوچنے والوں نے جانوروں کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔۔ اور اس سے بھی بد تر یہ کہ اس کے تدارک کے لیے سرکاری ٹیمیں بھی تشکیل نہیں دی جارہیں۔۔ اور ہم میڈیا کے ذریعے تشہیر کرکے اے مزید ہوا دے رہے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :