شاہراہ حیات

منگل 11 اگست 2020

Rizwan Afzal

رضوان افضل

صبح سے انگلیوں کی پوریں بےچین تھیں اور دل و دماغ اس بات پر مصر تھے کہ آج پھر کچھ تحریر کیا جائے   لہذا اپنی بد نما لکھائی میں  سادہ کاغذ پر چند جملے  گھسیٹنے سے پہلے  جب میں نے موضوع تحریر کے بارے میں "سوچنا" شروع کیا تو اس خیال سے مجھے حیرت ہوئی کہ اکیسویں صدی کا انسان سوچتا بھی ہے؟  کیونکہ  جس رفتار سے ہم معاشرتی، اخلاقی اور تہذیبی انحطاط کے  بحرِ بے کراں کی جانب  دیوانہ وار بھاگ رہے ہیں اس سے نہیں لگتا کہ ہم کچھ بھی کرنے سے پہلے سوچتے ہیں۔

  کسی ملک و قوم یا انسانی معاشرے  کے انحطاط کے وسیع تر موضوعات پر بات کرنے کی بجائے اگر ہم ایک عام انسان کی زندگی کا مطالعہ کریں اور اس کی ترجیحات کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم درست سمت میں سوچنے کی  صلاحیت تقریبا کھو چکے ہیں۔

(جاری ہے)

  اپنی ساٹھ، ستر سالہ زندگی کو پر تعیش طور پر گزارنے کی خاطر ہم ہوش سنبھالتے ہی جس "چوہا دوڑ" کا حصہ بنتے ہیں وہ ہم سے ہمارا ماضی، حال اور مستقبل تینوں ہی چھین لیتی ہے اور ہماری حالت کسی اندھیری رات کے مسافر کی طرح ہوتی ہے جس کے ہاتھ میں  ٹمٹماتا ہوا چراغ ہو اور اس کے گل ہو جا ئے  کا اندیشہ اسے ہمہ وقت پریشان کیے رکھے۔

یہاں میں یہ واضح کردوں کہ اس چراغ سے مراد انسان کی آرزوئیں ہیں۔ آرزوئیں پالنا کوئی بری بات نہیں  لیکن خواہشات کی اسیری انسان کی بے چینی کا باعث بنتی ہے۔ بقول شاعر
دل کے صحرا میں تہی چشم کھڑا سوچتا ہوں
کس طرح اتنی تمناؤں کو پالا جائے
 خواہشات کے بوجھ تلے دبا انسان شاید اس بات سے ناآشنا ہوتا ہے کہ زمین ایک مقتل ہے- انسانی خواہشات اور آرزوؤں کا مقتل۔

  انسان جب سرابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے  تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور اس کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں تو پھر ہوتا وہی ہے جو خالق کی مرضی و منشا ہو۔
 معاشرے میں قنوطیت پسندی کے بڑھتے رجحان کی ایک وجہ خواہشات کی اسیری بھی ہے۔  انسان جب اپنی من چاہی چیز حاصل نہیں کر پاتا تو مایوس ہونا ایک فطری عمل ہے، لیکن اس میں انسان کسی حد تک خود بھی قصور وار ہے۔

خواہش پالنے سے پہلے اس کے حقیقت پر مبنی ہونے کا اندازہ کرلینا ہمارے اختیار میں ہوتا ہے۔ اپنی تمام تر  کم مائیگی اور کم نظری کے باوجود میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ انسان کو اپنی قابلیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور کوئی بھی خواہش کرنے سے پہلے اپنی اہلیت  کو مدنظر رکھنا  از حد ضروری ہے۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ اگر ستر سالہ بزرگ کے دل میں میراتھن دوڑنے کی تمنا جاگ اٹھے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟
 بہرحال زندگی ایک سفر ہے اور سفر میں خواہشات کو محدود رکھ کر ہی منزل مقصود تک پہنچا جا سکتا ہے۔

  اگر راہ سے بھٹکانے والے خیالات کو ذہن سے نہ جھٹکا جائے تو منزل کے دھندلا جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ شاہراہ حیات پر انسان کو بہت سے نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور  کبھی تو وقت کی آندھی اتنی زوردار ہوتی ہے کہ خواہشات کے خیمے تک اکھاڑ کر لے جاتی ہے۔  ایسے میں انسان کبھی ماضی کی یادوں میں گوشہ عافیت تلاش کرتا ہے تو کبھی مستقبل کی فکر اسے کھائے جاتی ہے  لیکن سب سے زیادہ اذیت  کاسامنا "حال" کو کرنا پڑتا ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔

زندگی میں ساری تمنائیں تو شاذ شاذ ہی پوری ہوتی ہیں۔  جہاں ایک طرف خواہش جینے کا سہارا ہے تو وہیں دوسری طرف ہر خواہش کو اعصاب پر سوار کر لینا اذیت کا باعث بھی بنتا ہے  کیونکہ خواہشات کے بکھر جانے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔  بقول ظفر اقبال
 کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیات
 نکلی برونِ شہر تو بارش نے آ لیا
 بعض خواہشات ایسی ہوتی ہیں جن کے ٹوٹنے سے انسان کا دل مضبوط اور روح پختہ ہوتی ہے لیکن اس کے لیے  اطاعت اور شکر کرنے والا دل چاہیے جو خدائے بزرگ و برتر کے فیصلوں پر راضی ہونا جانتا ہو اور یہ تسلیم کرے کہ  اس عارضی قیام گاہ میں ہر تمنا پوری ہونا ضروری نہیں۔

  ایسے میں اگر صبر کے پیالے سے چند گھونٹ حلق سے نیچے اتار لے جائیں تو سکون روح کی گہرائیوں تک سرایت کر جاتا ہے اور زندگی قدرے آسان ہو جاتی ہے۔
یوں بھی جوہن گرین نے کہا تھا
"دنیا خواہشات پوری کرنے والا کارخانہ نہیں ہے"۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :