کیا پولیو ویکسین سازش ہے؟

جمعرات 8 جولائی 2021

Rizwan Ullah Bajouri

رضوان اللہ باجوڑی

ہمارے سماج کا سب  سے بڑا المیہ جہالت ہے ۔علم اور تحقیق کی دنیا میں بحثیت مجموعی یوں  تو پوری اُمتِ مسلمہ بانجھ پن کا شکار ہے مگر یہ تناسب ہمارے پاکستان میں حد سے کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے-ہمارے سماج کی جہالت کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ یہاں پر سب سے زیادہ بہتات اور پیدوار علماء اور ڈاکٹرز کی ہے
 دور کیوں جائیں۔

اپنی فیسبک وال سے ہی  یہ سروے کیجیے اور کسی دن آپ اپنی وال پر دینی مسئلے کی  راہ نمائی کے لیے پوسٹ لگائے دیکھ لینا ایسے ایسے نمونے اپنی آراء کا اظہار کرینگے گویا وقت کا غزالی اور رازی آپ سے مخاطب ہے حالانکہ ان میں سے اکثریت اُنہیں کی ہوگی جس نے کسی مدرسے میں وقت گزار کر علوم آلیہ ،عقلیہ ونقلیہ سیکھنا تو درکنار اپنی پنج وقت نماز کے کلمات کا درست تلفظ اور معنی تک کا علم نہیں سیکھا ہوگا۔

(جاری ہے)


 یہی حال  ہمارے ہاں طب کے میدان میں ہے کہ کوئی بھی میڈیکل کا مسئلہ سامنے آئے ہمارا مذہبی طبقہ اُس پر اپنی دانشوری کا یوں اظہار فرمائیں گے کہ گویا یہ طب کی دنیا کا نہیں علم دین کا مسئلہ ہے  حالانکہ انہی مذہبی طبقہ کو ہمارے سماج کے انجینئرز،ڈاکٹرز اور پروفیسرز سے یہ شکوہ ضرور  رہتا ہے کہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد آخر یہ کیوں قرآن کی تفسیر پر تفسیر لکھنا شروع کردیتے ہیں یا دینی سکالر کا ٹائٹل لگاکر میڈیا پر دین اور دینی مسائل سمجھانا شروع کرتا ہے جبکہ یہ اس کا میدان اور فن ہی نہیں ہے۔


 معلوم نہیں  یہ بات کہتے ہوئے ہمارے ہاں  مولوی صاحبان یہ اُصول اپنے ہاں طب کی دنیا میں رائے دیتے ہوئے کیوں بھول جاتے ہیں؟ کہ طب بھی ان کا شعبہ اور فن نہیں پھر اس میں حتمی رائے کیسے اور کیوں دیتے ہیں؟
علم اور تحقیق کی کمی کا سب سے بڑا نقصان قوم کو یہ لاحق ہوتا ہے کہ ایسی قوم آناً فاناً  پروپیگنڈا کا شکار ہوجاتی ہیں_ پولیو کے متعلق بھی ہمارا بیشتر  مذہبی طبقہ اسی پروپیگنڈا کا شکار ہے اور وہ اس کو دین اسلام کے خلاف کھلم کھلا سازش قرار دیتے ہیں حالانکہ اس پر اب تک کوئی معقول دلیل  اُنکے پاس نہیں بلکہ بسا اوقات جب یہ بحث ہمارے مولوی صاحبان چھیڑتے ہیں اور اسے دین اسلام کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں تو اس پر میں اُنہیں ایک بات کہا کرتا ہوں  کہ جب تک ہماری صفوں  میں اُمتِ مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والے چرب زبان اور ننگی گالیاں دینے والے مولوی ، کرپٹ سیاستدان اور کرپٹ بیروکریسی آفیسرز اور بازار میں اپنے حصے کے بقدر دغاباز اور ظالم عوام موجود ہو  تب تک یہود وہنود کو نا اسلام کے خلاف  کورونا سازش  رچانے کی  ضرورت ہے اور نہ پولیو سازش کی۔


دیوبندی سکول آف تھاٹ کے دو سرکردہ اور ذمہ دار علماء مولانا فضل الرحمن صاحب اور مفتی تقی عثمانی صاحب سے جب پولیو ویکسین کے بابت سوال کیا گیا تو دونوں نے اسے طب کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے یہی فرمایا کہ یہ دینی نہیں بلکہ شعبہ طب کا مسئلہ ہے اسلیے اس کے متعلق ہمارے ماہر ڈاکٹرز صاحبان کی رائے کا اعتبار کیا جائے گا اور اُنھیں کی رائے اس حوالے سے حرف آخر ہے مزید کہا کہ  اس کے متعلق  ہم  نے خود مستند ڈاکٹرز سے  استفسار کیا  تو اُنھوں نے اس ویکسین کو پولیو بیماری کی ہی ویکسین قرار دیتے ہوئے بچوں کو پلانے کی تجویز دی _
دیوبندیوں کے علاوہ یہی رائے اہل حدیث ،بریلوی اور اہل تشیع کے معتدل اور مستند اہل علم کی بھی ہے۔


 آخر پولیو ہے کیا؟ اور یہ وائرس ایک دوسرے سے کیسے متعدی ہوکر منتقل ہوجاتا ہے؟ اور اسکی علامات کیا ہیں؟  تو ذیل میں ان سوالات کے مفصل  جوابات  قارئین کی نذر کیے جاتے ہیں۔
" ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیو مائلائٹس (پولیو) ایک وبائی (تیزی سے پھیلنے والا) مرض ہے جو پولیو وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے، اور ٹانگوں اور جسم کے دوسرے اعضا کے پٹھوں میں کمزوری کی وجہ بن کر آدمی کے بدن کو مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے یا چند صورتوں میں محض چند گھنٹوں میں آدمی کو  موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے_
اسکے متعدی ہونے اور انتقال پر رائے دیتے ہوئے  ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیو وائرس کسی متاثرہ فرد کے پاخانے سے آلودہ ہو جانے والے پانی یا خوراک میں موجود ہوتا ہے اور منہ کے ذریعے صحت مند افراد کے جسم میں داخل ہو جاتا ہےوائرس کی تعداد جسم میں جا کر کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور یہ متاثرہ فرد کے جسم سے خارج ہوتا ہے۔


  پولیو کے ابتدائی علامات پر  بات کرتے ہوئے ماہر ڈاکٹرز صاحبان کا کہنا  ہے  کہ  بخار ، تھکاوٹ  ،سر درد،اعضامیں درد اور  زیادہ تر ٹانگوں میں اچانک کمزوری/فالج کا حملہ آور ہونا، جو زیادہ تر غیر متناسب اور مستقل ہوتا ہے یہ سب پولیو وائرس کی علامات شمار کیے جاتے ہیں_" یوں تو پولیو ویکسین پر کمیونٹی کی طرف سے بہت سارے اعتراضات اور شکوک وشبہات کیے گئے ہیں جس پر کافی حدتک کام کرنے کی ضرورت ہے مگر اس فیلڈ میں کام کرتے ہوئے  راقم کو کمیونٹی کی طرف سے جن چند مشترک سوالات کا سامنا ہوا ہے اس مضمون کے آخر میں اُنھیں کے جوابات افادہ عامہ کے لیے پیش خدمت ہیں۔


کمیونٹی کی طرف سے  ایک مشترکہ سوال یہ سننے کو ملا ہے کہ آخرکیا وجہ ہے کہ دیگر بیماریوں کی تو ہماری حکومت کو خبر ہی نہیں اور اس پر لاکھوں پیسے خرچ کرتے ہوئے ہماری دہلیز پر آکر ہمارے بچوں کو ویکسین کے قطرے پلاتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں پہلی بات تو یہ نوٹ کیجیے کہ اس پر ہماری حکومت کی ایک پائی بھی خرچ نہیں ہوتی بلکہ یہ باہر کے ممالک سے چیرٹی فنڈ کی صورت میں سب کچھ  ملتا ہے اور وہ جس کام کے لیے آپ کو پیسے دیتے ہیں اُس کا رزلٹ بھی آپ سے مانگتا ہے کہ دیا گیا پیسہ کہاں ؟ اور کیسے خرچ کیا؟ اس کے ثبوت لازماً اُنکو دینے ہوتے ہیں_ دوسری بات یہ کہ ہماری حکومت بھی سرکاری ہسپتالوں میں بہت ساری بیماریوں کا علاج کرتی ہے  اور صحت کارڈ میں  ایک نہیں بلکہ کئ قسم کی بیماریوں کے لیے پیسے موجود ہوتے ہیں جو بوقت ضرورت اُس پر خرچ کیے جاسکتے ہیں ؟ سرکاری ہسپتالوں میں او پی ڈی کی سہولت بھی مد نظر رکھیں کہ اُس میں بہت ساری بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔


دوسرا سوال یہ سننے کو ملا ہے کے آخر باہر کے غیر مسلموں سے ہم مسلمانوں کو ایسی ہمدردی کیوں پیدا ہوئی کہ وہ ایک طرف تو افغانستان اور فلسطین میں ہم پر بم گراتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ ہماری صحت کےمحافظ بن کر ہمیں پولیو سے بچنے کے لیے پولیو ویکسین مہیا کرتے ہیں؟
تو اس کا مختصر جواب یہی ہے کہ اُنھیں آپ کیساتھ ہمدردی نہیں بلکہ اپنے ساتھ ہمدردی ہے اُنھوں نے اپنے ملک کو پولیو فری بنایا ہے اب وہ دیگر ممالک کو بھی پولیو فری بنانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان ممالک سے جانےوالے  لوگوں کی وجہ سے دوبارہ اُنکے ہاں یہ  وائرس اور بیماری پھیل نہ جائے۔


ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ فلاں موقع پر فلاں جگہ پر پولیو ویکسین نے پورے علاقے میں بچوں پر ری ایکشن کیا تھا لہذا یہ غلط ہے اسلیے ہم یہ ویکسین بچوں کو نہیں پلاتے ؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ بعض سازشی عناصر افواہ اور پروپیگنڈا کر تے ہوئیں اس طرح کی اخبار معاشرے میں عوام کے اندر پھیلاتے ہیں تاکہ عوام میں تشویش پیدا کرے لیکن  کسی حدتک یہ بات درست  ہے کہ  دوسری ادویات اور ویکیسن کی طرح پولیو ویکیسن بھی ایکسپائر ہو ہی جاتے ہے اور یہ بات بدیہی ہے کہ اگر غلفت کی وجہ سے یہ ویکیسن بچوں کو پلائی جائے تو اُن پر ضرور ری ایکشن کرے گی لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دو کروڑ آبادی میں ایک ٹیم غلط نکل آئی تو گویا بقیہ تمام بھی غلط ہوئیں میں یہاں پر اس ٹیم کی غلطی کو جسٹفائی نہیں کر رہا کیونکہ چور چور ہوتا ہے چاہے انڈا چور ہو یا مرغی چور اسلیے غلط ،غلط ہوتا ہے اور غلط کو غلط کہنا چاہیے مگر اُتنا جتنا کہ غلط ہو یہ نہیں کہ ایک ٹیم کی غفلت سب پر یکساں طور پر ڈالتے ہوئے دیگر ٹیموں کو بھی قصور وار ٹہرایا جائیں-
  پولیو ویکسین مکمل طور پر محفوظ ہے اور یہاں تک کہ ڈاکٹرز صاحبان کے کہنے کے مطابق  اگر یہ بار بار مختصر وقفوں کے ساتھ لی جائے تب بھی اس کے کوئی خطرناک یا مضر اثرات نہیں ہیں۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی جیسے تمام مسلمان ممالک پولیو کا صفایا کرنے کے لئے اس ویکسین کو استعمال کرتے ہیں۔ سعودی عرب، حج اورعمرے کی ادائیگی کے لئے سفر کرنے والے تمام مسلمانوں سے اب پولیو ویکسینیشن کا سرٹیفکیٹ اور  تصدیقی دستاویزات کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسلیے تمام والدین سے میری ہمدردانہ گزارش ہے کہ انسداد پولیو مہم میں حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے بچوں کو ضرور پولیو قطرے پلائیں اور ایک ذمہ دار شہری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک پرُ امن اور صحت مند معاشرے کے تشکیل  ہونے میں اپنا حصہ ڈالیں۔۔۔اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ پولیو،کورونا بشمول تمام امراض اور بیماریوں سے ہماری حفاظت فرمائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :