حجاج بن یوسف کے انتظار میں

بدھ 7 اپریل 2021

Romana Gondal

رومانہ گوندل

جب سے دنیا بنی ہے تجارت اور سیر وساحت کی غرض سے آ مدورفت کا سلسلہ چلتا رہا ہے اور دن بدن اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، لیکن اس کے ساتھ جنگوں اور فتوحات کا سلسلہ بھی ہر دور میں جاری رہا ہے ۔ کچھ فتوحات مذہبی بھی تھی اور کچھ حملہ آور وں نے اپنی حکومت اور سلطنت کو وسعت دینے کے لیے بھی اور دوسرے ملکوں کے خزانوں پہ قبضہ کرنے کے لیے بھی دوسرے علاقوں کا رخ کیا۔

ان فتوحات میں کچھ تو محدود علاقے تک تھی لیکن ایسے فاتح بھی گزرے ہیں جنہوں نے پوری دنیا کو فتح کرنے کا خواب دیکھا ۔ اس مقصد کے لیے وہ ایک علاقے سے اٹھے ، حملے کئے ، علاقے فتح کرتے گئے۔ سکندر اعظم بھی ایک ایسا فاتح تھا جس کو تاریخ نے دی گریٹ کا نا م دیا ہے۔ بر صیغر پاک و ہند شروع سے ہی ایک ایسا علاقہ رہا ہے جو حملہ آواروں کے لیے توجہ کا مرکز رہا ہے ۔

(جاری ہے)

مختلف لوگوں نے حملے کئے ، کچھ فتح یاب بھی ہوئے پھر یہاں حکومیتیں بھی کی لیکن ایک فاتح جس نے بر صیغر کی تاریخ بدلی تھی کیونکہ یہاں اسلام لانے کا سہرا انہیں کے سر رکھا جاتا ہے۔ تاریخ کے کم عمر فاتح ” محمد بن قاسم“۔
ایک عورت کی پکار پہ سترہ سال سپہ سالار طائف سے اٹھتا ہے ایک لشکر کو کمانڈ کرتا ہے اور یہ کمانڈ آ ج کے دور کی نہیں تھی جہاں آ رمی جنگ کے لیے جاتی ہے تو ان کا مکمل رابطہ پیچھے ہوتا ہے منٹ منٹ کی رپورٹ بتائی جاتی ہے اور ہر کاروائی کی ہدایات انہیں دی جاتی ہیں۔

ضرورت پڑنے پہ مزید آ رمی اور اسلحہ بھی مل جاتا ہے۔ لیکن اس دور کے حالات آج سے بہت مختلف تھے ۔ پیچھے فوری رابطے کی کوئی سہولت لشکر کے پاس نہیں ہوتی تھی۔ سارا لشکر بھی مارا جاتا یا قید ہوجاتا تو یہ بات پتا لگنے میں جانے کتنا وقت لگ سکتا تھا۔ ایسے میں پورا لشکر سپہ سالار پہ انحصار کرتا تھا۔ حالات ، ضروریات کے مطابق جو حکمت عملی ، سپہ سالار بہتر سمجھتا اپنا لیتا ۔

اس لیے سپہ سالار کا تجربہ کار اور فہم و فراست اور فیصلہ کرنے کی قوت کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اور ایسے کئی سپہ سالار گزرے ہیں جنہوں نے اپنے فیصلوں اور قابلیت کا لوہا منوایا ۔ لیکن ایک سترہ سالہ نو جوان کے لیے لشکر کو کامیابی سے کمانڈ کرنا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا لیکن کمانڈ بھی ہوئی وہ فتح یاب بھی رہے ، حکومت کی اور اسلام کی تبلیغ کی۔

انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ایک بہترین سپہ سالار، حکمران اور مبلغ ہیں اور ان کے دم سے بے شمار لوگ مسلمان ہوئے اور ایک ایسی شاندار ریاست بنی جس میں ہر انسان اپنے حکمران سے خوش تھا۔
محمد بن قاسم ایسے ہیرو ہے جس کے بغیر تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ انہیں جتنا سراہ جائے کم ہے لیکن ایک سوال آتا ہے ذہن میں کہ سترہ سال کے نو جوان میں اتنی قابلیت آ ئی کیسے۔

آج کل ایک ٹرم مشہور ہو گئی ہے گاڈ گفٹڈ، کچھ لوگوں خاص صلا حیتوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ۔ اس دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ خاص قابلیت کے ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے لیکن اس قابلیت کو تربیت سے نکھارنے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ تربیت ہر بچے کو نہیں ملتی۔ اس لیے جہاں محمد بن قاسم کی عظمت کو مانا جاتا ہے ، وہاں ایک سلوٹ حجاج بن یوسف کو بھی کرنا چاہیے جو محمد بن قاسم کے چچا تھے۔

اس عورت نے حجاج بن یوسف کو پکارا تھا لیکن حجاج بن یوسف نے سترہ سالہ نو جوان پہ اتنا اعتماد کیا کہ انہیں لشکر کا سپہ سالار بنا کے بھیجا۔ انہوں نے نو جوان پہ اعتبار کے ساتھ اپنی تربیت پہ بھی بھروسہ کیا انہیں یقین تھا کہ محمد بن قاسم بہترین کمانڈر ثابت ہو ں گئے۔ اگر انہیں کم عمر سمجھ کے اس لشکر کی کمانڈ نہ دی جاتی تو کیسے پتا چلتا کہ وہ سترہ سال کی عمر میں اتنی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔


 آج ہمارے معاشرے میں والدین ، اسا تذہ اور بزرگوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کی ذمہ داری پوری کریں اور پھر ان پہ اعتماد کریں ۔ تبھی وہ زندگی میں کچھ کر کے دکھائیں گئے۔ سترہ سال کی عمر میں جب محمد بن قاسم کو لشکر کی کمانڈ دے دی گئی تھی ، آج ہمارے ہاں بچوں کو سترہ سال کی عمر میں موٹر سائیکل کی چابی نہیں دی جاتی تو یہ بچے کب کچھ کر کے دکھا ئیں گئے؟ انہیں تاریخ کے ہیروز کے بارے میں بتائیں ، ان کا تعارف کروائیں تا کہ ان کا عمل ان سے متاثر ہو۔

ورنہ تو وہ فلمی ہیروز سے ہی متاثر ہوں گئے جن کو وہ دن رات دیکھتے ہیں۔ ہمارے سترہ سال کے نو جوانوں کو ٹین ایجر کہہ کر سنجیدگی سے لیا ہی نہیں جاتا، نہ ان سے بات کرنا ہی ضروری نہیں سمجھتے تو تربیت کیسے ہوگی۔ حالانکہ نو جوانوں کا کردار ہر تاریخ میں ایک نمونہ رہا ہے چاہے وہ اسلام کا ابتدائی دور ہو یا تحریک پاکستان نو جوانوں نے اس کے لیے جو قربانیاں اور جدو جہد کی، وہ نا قابل فرموش ہے۔

یہ عمر جو ش و جذبے کی ہوتی ہے ۔ اگر ان کے اس جوش و جذبے کو صیحیح سمیت دے دی گئی تو قوم سنوار جائے گی ورنہ یہ جذبے سڑکوں پہ ون ویلنگ کا شکار ہو جائیں اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ اس لیے قوم آج پھر اپنے حجاج بن یوسف کے انتظار میں ہے جو اس کے نو جوانوں کے سر پہ سپہ سالاری کا تاج رکھ دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :