اختتامِ رمضان

پیر 10 مئی 2021

Romana Gondal

رومانہ گوندل

انسانوں نے اپنی زندگیاں اک جہد مسلسل بنا لی ہیں یا واقعی زندگی ہے ہی ایک جہد مسلسل۔ اور اس تسلسل کو گو کہ انسان خود ہی ٹوٹنے نہیں دیتے لیکن چاہتے ضرور ہیں کہ کوئی بریک آئے ، ہم اپنے رب کو یاد کریں ، لوگوں سے بات کر یں۔ خالق اور مخلوق سے رشتے کو پھر سے استوار کریں ۔ ایسے میں رمضان کا مبارک مہینہ ہمیں ایک بار پھر اپنے رب سے جوڑنے آتا ہے ، اس کی رضا حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے، لوگوں میں احساس پیدا کرتا ہے ۔

رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ جو پچھلے گناہوں ، غلطیوں اور کو تاہیوں سے بخشش اور آنے والی زندگی کے لیے تربیت بن کے آ جاتا ہے ۔ روزہ اپنی مرضی سے کچھ چیزوں کو چھوڑ دینے کا سبق ہے ۔ رب کی رضا کے لیے بھوک اور نیند قربان کرنے کا نام ہے۔ صرف کھانا پینا نہیں ، ملاوٹ ، فراڈ،غیبت ، غصہ ، لڑائی جھگڑا ، جھوٹ۔

(جاری ہے)

چھوٹی چھو ٹی باتوں کو سہہ جانا ۔ برداشت کر جانا ۔

اپنے ذبان اور ہاتھ سے دوسروں کو اذیت نہ دینا ۔ اب یہ مبارک مہینہ ختم ہونے کو ہے۔ لیکن ہمیں کسی بھی نعمت سے تب تک کچھ نہیں ملتا جب تک ہم اس کی قدر نہیں کرتے اور انسانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم سے اکثریت قدر دان نہیں ہوتی۔
اس مہینے کے اختتام پہ اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم نے اس کی قدر کی۔ اپنے عمل ، اپنی سوچ میں کوئی تبدیلی کی۔ اس مہینے میں کتنی بار ایسا ہوا کہ ملاوٹ، جھوٹ سے رک گئے ہوں، کسی کی غلط بات سن کے سہہ گئے ۔

اپنی غلطی پہ معافی مانگ لی۔اپنے صحیح ہونے کے با وجود اپنی مرضی سے ، اپنے حق سے پیچھے ہٹ گئے ۔ چپ رہ کے کوئی لڑائی ختم کر دی، اپنے غصے کو قابو کر لیا ۔ اپنی ذبان کو فضول اور بری بات سے ، کسی کا دل دکھانے سے روک لیا صرف یہ سوچ کر کہ یہ رحمتوں اور عطاؤں کا مہینہ ہے اور ہمیں اس میں کچھ حاصل کرنا ہے۔ کوئی عمل، کوئی تبدیلی اس رمضان میں آ ئی یا ہم جہاں کھڑے تھے ، وہی رہے؟
 رمضان گزر گیا لیکن یہ مہینہ محض گزرنے کے لیے تو نہیں آیا تھا یہ تو تربیت کا مہینہ تھا۔

اپنے نفس پہ پاؤ ں رکھ کے رب کی رضا تک پہچنے کا۔ اس مبار ک مہینے میں کچھ تو حاصل کر لیتے ، وقتی فائدے کو پس ِ پشت ڈال کے ایمانداری کا مظاہرہ کرتے۔ ا پنی انا کے جھنڈے کو نیچا کر کے، انسانیت کو عزت دیتے۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم نے نہ کبھی اس مہینے کی قدر کی اور نہ اس میں کی گئی عنائیات کی۔ چاہے وہ دنیا کا سب سے بڑا انعام ، ہدایت اور روشنی ، پیاری کتاب ، قرآن مجید ہی کیوں نہ ہو یا پھر ہمارے لیے آزادی کی نعمت ملک پاکستان۔


عموما ایک لمحہ فیصلے کا انسان رب سے اور لوگوں سے جڑ بھی جاتا ہے اور در بھی نکل جاتا ہے۔ ہدایت سامنے آتی ہے اسے قبول بھی کر سکتا ہے اور انکار بھی کر سکتا ہے ۔ رب سے رشتہ جڑ بھی سکتا ہے اور دور بھی نکل سکتا ہے تو کیا اس مہینہ میں روزے اور نماز اور دیگر فرائض کی ادائیگی کی کوشش کی ہم نے ہیں؟ اور یہی انسانوں کے معاملے میں بھی ہوتا ہے۔

کوئی بری بات کرتا ہے اور ہمیں وہ پسند نہیں آتی ۔ ایسے میں ہم یا تو کسی کی بات اور عمل کے جواب میں برداشت کر لیں یا رد عمل کا اظہار کر دیں ۔ اور یہ لمحے لمحے کا سفر آخر کار پوری زندگی بن جاتا ہے ۔ برداشت کر لینے میں وقتی مشکل ضرور ہوتی ہے اپنی انا اور نفس کو مارنے کی۔ لیکن صرف چند لمحات کے لیے۔ تھوڑی دیر بعد غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد انسان کو لگتا ہے کہ اتنی بڑی بات تو تھی ہی نہیں اس لیے چپ رہ کے عزت بچ گئی اور اگر رد عمل دیکھا دے تو بھی تھوڑی سی شرمندگی ہوتی ہے لیکن پھر وہ دوسروں کے برے رویے کو دلاسہ بنا کے مطمئن ہوجاتا ہے کہ میرا قصور نہیں تھا۔

کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ اپنے عمل کے لیے وہ کوئی نہ کوئی جسٹیفیکشن ڈھونڈ لیتا ہے ۔
 دونوں صورتوں میں ہم اپنا رد عمل کچھ دنوں میں بھول جاتے ہیں اور خود کو مطمئن کر لیتے ہیں ۔ لیکن زندگی صرف یہ تو نہیں ہے کہ کیا اور بھول گیا۔ اس کا کوئی انجام بھی ہے اس لیے ذرا سوچیں کہ کل قیامت کو جب زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب کھلے گا تو یہ ہدایت اور برداشت کے لمحے پھل دار بھی ہو سکتے ہیں۔

ہر لمحے کی کئی نیکیاں آہستہ آہستہ اعمال نامہ بھرنے لگتا ہے۔ اور اس کے بر عکس بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ایک لمحے کا انکار، عدم برداشت ، انا اور رد عمل اعمال نامے کو سیاہ بھی کر سکتا ہے۔
ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو سوچتے،رد عمل کرتے ، جلتے کڑھتے زندگی بھی اس مہینے کی طرح اختتام کو پہنچ جائے گی۔ اس لیے اس مبارک مہینے کے آغاز میں جو نہیں سوچا ، وہ اختتام پہ سوچ لیں کہ ہم کس سائیڈ کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔ یقیقنا روشنی او ر نور کی طرف تو اپنے نفس کو مارے بغیر نور نہیں ملتا۔ نور ٹھنڈک ہے ، روشنی ہے۔ سکون ہے۔ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ دنیا اور آخرت میں ہمارا انتخاب سکون ہے ؟ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :