یہ صرف ایک خبر نہیں تھی

پیر 16 اگست 2021

Romana Gondal

رومانہ گوندل

اس وقت سو شل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم بن گیا ہے جہاں ہر انسان کے پاس اختیار ہے کہ اپنی ذاتی زندگی کو لوگوں کے سامنے لے آئے، چند منٹ کی ایک ویڈیو سامنے آتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کسی کو ہیرو او ر کسی کو ولن بنا دیتی ہے، جس تیز رفتاری سے چیزیں ابھرتی ہیں اسی تیزی سے غائب ہو جاتی ہیں ۔ چند دن کے لیے کوئی واقعہ موضوع بحث بنتا ہے اور پھر لوگوں کی یاد داشت سے سب محو ہو جاتا ہے اور کوئی نیا مو ضو ع بحث مل جاتا ہے ۔

اسی طرح کچھ مہبنے پہلے سوشل میذیا پہ انڈیا سے ایک لڑکی کی خود کشی سے پہلے بنائی گئی ویڈیو بہت وائرئل ہوئی۔ ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ تھا ، ایک انسانی جان اس طرح بے مقصد ضائع ہو گی۔ ایک لڑکی کو اس مقام پر لانے کے لیے ذمہ دار کون ہے ، ان کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے ۔

(جاری ہے)

یہ بحث اپنی جگہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مسئلہ جو صدیوں سے معصوم لوگوں کی جانیں لے رہا ہے اس کا کوئی مستقل حل ہونا چاہیے۔

لیکن ہمارے جیسے معاشروں میں ایسے مسئلے حل نہیں ہوا کر تے ۔ واقعہ کے بعد محض باتیں ہی ہوتی ہیں کیونکہ معاشرے سوچ سے بدلتے ہیں اور بر صغیر تین حصوں میں بٹ گیا لیکن سوچ آج تک نہیں بدل سکی ۔
 ہر واقعہ کی طرح اس کے بعد بھی سو شل میڈیا پہ اک بحث شروع ہو گئی اور اس سے دو طرح کی رائے سامنے آئی۔ کچھ لوگ تو عائشہ سے بہت ہمدردی کرتے نظر آئے ، نہ صرف ہمدردی کی بلکہ اس کے اس فیصلے کی تائید کی کہ جب زندگی مشکل ہو جائے تو موت کو گلے لگا لینا بہتر ہوتا ہے۔

اگر اس نے یہ فیصلہ کیا ہے تو بالکل ٹھیک ہے۔ اس کے برعکس کچھ لوگو ں نے اس کو انتہائی تنقید کا نشانہ بنا تے ہوئے کہا کہ انہیں کسی بھی طرح سے اس لڑکی سے کوئی ہمدردی نہیں ہے ۔ کیونکہ خود کشی حرام ہے اور کسی بھی صورت اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ بات تو ٹھیک ہے کیو نکہ خود کشی ایسا عمل نہیں کہ اس کی تائید کی جا سکے لیکن پھر بھی انتہا پسندی ٹھیک نہیں۔


زندگی کتنی ہی مشکل ہو جائے خود کشی جائز نہیں ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ فیصلہ ٹھیک ہے ۔ لیکن پھر بھی اتنے غرور اور سخت الفاظ کا استعمال کسی مرنے والے کے بارے میں نہیں کرنا چاہیے۔ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ کسی کو ایسی آ زمائش میں نہ ڈالیں کہ شیطان کا یہ وار کامیاب ہو جائے جس کے بعد توبہ کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی ۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کی زندگی نماز اور قرآن میں گزری وہ دو سروں کو اللہ کی ذات پہ یقین کرنے کی تلقین کرتے رہے ۔

لیکن ایک آزمائش نے ایسے ان کا یقین چھین کے مایوسی کے گڑھے میں پھینک دیا کہ خود کشی کر لی۔ اس لیے جو اس دنیا سے چلا گیا ، چاہے جیسے بھی گیا اس کے لیے دعا کریں ۔ کیونکہ آزمائشوں میں جینا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ دعا کریں کہ اللہ کسی کو ایسی آزمائش میں نہ ڈ الیں اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پہ ہو۔
لیکن اگر کچھ لمحے نکال کے خود کو اس لڑکی کی جگہ رکھ کے سوچیں ان وجو ہات پہ غور کریں تو بہت سی باتیں سمجھ آ سکتی ہیں کیونکہ یہ صرف ایک خبر نہیں تھی بلکہ ایک بھیانک حقیقت ہے ۔

جو اگر زندہ لوگوں کو سمجھ آ جائے تو شاید کئی جانیں ضائع ہونے سے بچ جائیں۔ انڈیا پاکستان جیسے معاشروں میں کچھ حقائق ایسے ہیں جو صدیوں بعد بھی نہیں بدلے ، ہمارے ہاں عورتیں آج بھی قسمت کے رحم و کرم پہ ہوتی ہیں، ان کے حقو ق کا کوئی تحفظ نہیں ہے ۔ لڑکیوں کے ذہن میں بوجھ ہونے کا احساس بیٹھا دیا جاتا ہے ، انہیں اتنا اعتماد نہیں دیا جاتا کہ مشکل وقت میں کوئی ان کے ساتھ کھڑا ہو گا اس لیے جیسے ہی کوئی برا وقت آتا ہے انہیں موت واحد راستہ نظر آتا ہے ۔

اس وقت کچھ شیطانوں نے بلیک میلنگ کو ایک کارو بار بنا لیا لیکن لڑکیوں کے بلیک میل ہونے کی سب سے بڑی وجہ گھر والوں کا خوف ہوتا ہے۔ جن کو طاقت ہونا چاہیے ، وہ سب سے بڑی
کمزوری بن جاتے ہیں۔
 معاملہ گھر چھوڑنے کا ہو یا کوئی اور غلط باتوں میں حوصلہ افزائی نہ کریں لیکن ایسے حالات میں رہنے پر بھی مجبور نہ کریں کہ نجات کا واحد راستہ موت ہی ہو۔

عائشہ اور اس جیسی کتنی لڑکیوں کے پاس آ پشن ہوتا ہے کہ وہ طلاق لے لیں اور باقی زندگی سکون سے گزار لیں۔ لیکن ہمارے مہذب معاشرے کی تلخ سچائی یہ ہے کہ طلاق یافتہ عورت گھر کی چار دیواری سے لے کر کام کی جگہ تک ہر جگہ شرمندہ رہتی ہے ، اس کی ذاتی زندگی کا مسئلہ اسے معاشرے کا مجرم بنا دیتا ہے ، اس کی طرف اٹھنے والی نظروں میں حقارت، طنز اور ہمدردی تو ہوتی ہے لیکن عزت نہیں ہوتی ۔

لیکن معاشرے سے کیا گلہ ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے اپنے گھر میں اس کے لیے جگہ نہیں ہوتی تو شیطان ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتا ہے اور ہمیشہ کی مشکل میں ڈال دیتا ہے ۔ کاش کوئی سمجھتا کہ بیٹیاں صرف عزت کی علمبردار نہیں ہوتی وہ ایک انسان بھی ہوتی ہے صرف اپنی عزت کو بچاتے بچاتے اس کی سانسیں داؤ پہ نہ لگائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :