ہم غیر جانبدار ہیں

جمعرات 8 جولائی 2021

Romana Gondal

رومانہ گوندل

اللہ کو ایک ماننا ، اس ذات کے خالق و مالک ہونے کا اقرار کرنے کا نام توحید ہے۔ توحید کا اقرار ، مطلب ہر شرک کی نفی ۔ تو حید اور شرک ایک دوسرے کی مکمل طور پہ ضد ہیں۔ توحید اللہ کی وحدنیت کا اقرار ہی دینِ اسلام کی بنیاد ہے۔ کفر و شرک سے ایمان کی طرف پہلا اور سب سے بنیادی قدم توحید کا اقرا ر ہی ہے ۔ کیونکہ اس کے بغیر ایمان کا تصور ہی نہیں ۔

اسلام کے باقی تمام ارکان اور عبادات کا اطلاق اس کے بعد ہوتا ہے۔ ایمان کے بعد بھی توحید ہی مسلمانوں کی ہر عبادت نماز، روزہ ، قرآن، حج ، زکوة ، جہاد کی بنیاد ہے لیکن سب سے پہلے کلمہ ہے جو کہ پہلی اور بنیادی سیڑھی ہے ، جس طرح پہلی سیڑھی پہ قدم رکھے بغیر اوپر نہیں چڑھا جا سکتا اسی طرح کلمہ پڑھے بغیر کوئی دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا اور جب ایک انسان کلمہ پڑھ لیتا ہے تو وہ شرک سے ایمان کی طرف سفر کرتا ہے ۔

(جاری ہے)

ایک انسان مشرک ہے اور اس کو چھوڑنا چاہتا ہے تو سب سے پہلا اقرار ذبان سے ہو گا اور یہ اقرار کلمہ پڑھ کے ہو گا۔
لا الہ الاللہ
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
 اب اگر اس کلمے کے الفظ پہ غور کر یں تو اس کے دو حصے ہیں۔ آ غاز کہاں سے ہے۔
 لا الہ
کوئی معبود نہیں۔
 یہ کہہ کے انسان غیر جانبدار ہو گیا۔ وہ جس شرک میں تھا ۔ اب اس میں نہیں رہا، اس سے سے نکل آ یا ہے ۔

لیکن ابھی تک ایمان میں داخل نہیں ہو ا بلکہ وہ غیر جانبدار ہو گیا ، کیونکہ وحدنیت کا اقرار ابھی باقی ہے ، جب تک وہ یہ نہیں پڑھ لیتا۔
الا للہ
سوائے اللہ کے۔
یہ پڑھ کے موحد ہو گیا ۔ اس نے تو حید کو قبول کر لیا۔ اب جانبدار ہوگیا۔ اس نے کفر کا انکار کر کے حق کا اقرار کر لیا۔
 یہ کلمہ مسلمان کی پہلی تربیت ہے ۔ اس لیے اس کے الفاظ اور مفہوم پہ غور ضروری ہے ۔

کلمے سے کیا سمجھ آ یا؟ یہ کہ غیر جانبداری کوئی چیز نہیں۔ انسان جانبدار ہوتا ہے یا حق کا یا پھر کفر کا۔
ہم سب کا ہر روز کئی حالات و واقعات سے واسطہ پڑتا ہے۔ کوئی ہمیں پسند آ جاتا ہے اور کسی کو نا پسند کرتے ہیں۔ کسی پہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور کسی پہ غصے اور دکھ کا۔ لیکن آ ج کل کے ماڈرن دور میں ایک اور ریکشن سامنے آ یا ہے۔ غیر جانبدار ہونے کا۔

بہت سے جرائم اور برائیاں جو ہمارے سامنے ہوتی ہیں لیکن ہم کسی کا ساتھ نہیں دیتے۔ نہ اچھائی کو ا چھائی کہتے ہیں اور نہ برائی کو برائی ۔ بلکہ خاموش رہتے ہیں اور اس خاموشی کو غیر جانبداری کا نام دیتے ہیں۔ حالانکہ غیر جانبداری کچھ نہیں ہو تی اور نہ یہ قابل ِ قبول ہے۔ کیونکہ ایسا ہوتا ہی نہیں کہ انسان کسی چیز کو دیکھے اور اس کے اندر کو ئی اچھا یا برا احساس پیدا نہ ہو اور وہ احساس ہی اس کا اندر ہوتا ہے کہ وہ کس سائیڈ پہ ہے۔


انسان اس دنیا میں عمل کے لیے بھیجا گیا ہے جس پہ اس کا حساب ہونا ہے تو کیا وہ ہر معاملے میں غیر جانبدار بنا رہے۔ تو کیا اس کا کوئی حساب نہیں ہوگا ؟ یقینا ہو گا۔ اللہ تو غیر جانبداری کا نہیں کسی عمل کا حکم دیتا ہے۔ بظاہر اگر غیر جانبدار رہے، خاموشی اختیار کرے تو بھی دل کا جھکاؤ کسی نہ کسی طرف ہوتا ہے تو انسان بھی اصل میں اسی طرف ہوتا ہے جس طرف اس کا دل ہوتا ہے۔

جہاں بول کے کسی کو روکا جاسکتا ہو وہاں چپ رہنا بھی ظلم کا ساتھ ہوتا ہے۔ کلمے سے یہی سبق دیا گیا ہے کہ جس طرح آدھا کلمہ پڑھ کے کفر سے نکلتا ہے لیکن ایمان میں داخل نہیں ہوتا۔ جب تک مکمل نہ کر لے۔ اسی طرح جب تک انسان کسی سائیڈ کو نہیں چنتا تو وہ درمیان میں ہی لٹکتا ہے اور درمیان میں لٹکنے والا کبھی منزل پہ نہیں پہچنتا۔ اس لیے درست راستے کا انتخاب کرنا اور اس میں درست طرح سے چلنا ہوتا ہے ۔


بنی اسرائیل نے بچھڑا کو معبود بنایا۔ تو تین گروہ بن گئے۔ ایک وہ جہنوں نے اس کی عبادت کی ، دوسرا وہ جو انہیں روکتے رہے لیکن تیسرے گروہ میں و ہ لوگ تھے جہنوں نے نہ انہیں منع کیا اور نہ خود عبادت کی بلکہ جو غیر جانبدار رہے۔ تو وہ دونوں گروہ مجرم ٹھہرے جنہوں نے عبادت کی اور جو غیر جانبدار رہے۔ ایمان ان کا قابل قبول تھا جنہوں نے انہیں منع کیا تھا۔

ہمارے ہاں برائیاں اس لیے نہیں پھیل رہی کہ کچھ لوگ وہ کر رہے ہیں بلکہ اس لیے پھیل رہی ہیں کہ جاننے والے لوگ یہ کہہ کے غیر جانبدار ہوگئے کہ ہر انسان کا اپنا عمل ہے جس میں وہ آ زاد ہے۔ جو چاہے کر لے کوئی دوسر ا اس کا ذمہ دار نہیں تو ایسا نہیں ہے ۔ ہم ہر اس عمل کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں جس کا ہمیں پتا ہو یا جو ہمارے سامنے ہوا ہو۔ جس کو روکنے کی کوشش کر سکتے تھے ۔

جو ہم نے نہیں کی۔ پچھلی قوموں پہ جب جب بھی عذاب آئے تو صرف نا فرمان نہیں مارے گئے بلکہ غیر جانبدار بھی اس میں پکڑے گئے۔ جہاں ہمارے معاشرے میں لا تعداد جرائم اور برائیں جنم لے گئی ہیں اس کے کرنے والے تو مجرم ہیں ہی۔ لیکن وہ لوگ اس سے بڑے مجرم ہیں جو ان کو روک سکتے ہیں لیکن روکتے نہیں۔ اس میں عام لوگوں سے لے کر انصاف اور قانون کی کرسیاں سنبھال کے بیٹھے ہوئے تک سب شامل ہیں جو عملا غیر جانبدار بنے ہوئے ہیں۔ اس غیر جانبداری سے مجرم دندناتے پھر رہے ہیں ، معصوم لوگ مر رہے ہیں۔ صرف قومی نہیں بین الاقوامی سطح پہ بھی بے گناہ لوگوں کا بے دریغ قتل ہو رہا ہے لیکن انسانیت کے علمبردار غیر جانبدار بنے بیٹھے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :