
عورت محفوظ نہیں
بدھ 25 اگست 2021

رومانہ گوندل
پہلے دن جو خبر آ ئی اس میں ایک لڑکی کو مظلوم دکھایا گیا اور پھر اس کے بعد کئی انکشافات ہو رہے ہیں کہیں اس کے ساتھیوں کو مورد و الزام ٹھہرایا جا رہے ہے کہ یہ ان کا پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا ۔
(جاری ہے)
اس میں کوئی شک نہیں کہ لڑکی کو پردہ کرنا چاہیے تھا ۔ پردہ معاشرتی مسائل کو حل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ لیکن اگر وجہ صرف یہ ہے تو اس وقت یورپ میں تو کوئی عورت زندہ نہ ہوتی لیکن وہاں تو عورتیں اس سے بھی کم لباس میں گھومتی ہیں لیکن کچھ نہیں ہوتا۔ اس سے نظر آتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک بڑی و جہ قانون کی بالا دستی بھی ہے۔ کافر وں کے معاشرے میں جرم کرنے والے کو پتہ ہے کہ اسے سزا ملے گی اس لیے سکون رہتا ہے لیکن اسلامی ملک میں جنگل کا سا قانون ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ واقعہ کے بعد وزیر اعظم اور وزیر اعلی خصوصی نو ٹس لینے کے بجائے ایسے قوانین بنا دیں کہ جرم کرنے والے کو پتہ ہو کہ وہ بچ نہیں سکتا ۔ جن معاشروں میں مجرم بچ جاتے ہیں وہ معاشرے کبھی پر امن نہیں ہوتے۔ تلخ ہی سہی لیکن سچ یہی ہے کہ سات دہائیوں کے بعد بھی ہمارے ملک میں ایسا نظام نہیں آسکا جس پہ قانون کی بالا دستی ہو ، جو اس معاشرے کو انسانوں کا معاشرہ بنا دیتا ۔
دوسرا بڑا مسئلہ ہمارے ہاں لوگوں کی یہ سو چ ہے کہ کر دار صرف عورت کا ہوتا ہے ۔ مرد کے لیے تو اتنا جواز بھی کافی ہے کہ عورت نے ایک اشارہ کردیا تھا تو چار سو لوگوں کے ہوش اڑ گئے ، حالانکہ ایک مسلم معاشرے میں کسی بے پردہ کے اشارے کا جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کوئی اس پہ چادر ڈال دے، کسی اشارے کے جواب میں منہ بھی پھیرا جا سکتا ہے۔ وہاں موجو د لوگوں کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تو اس تحقیق کی ضرورت نہیں ہے کہ لڑکی کی غلطی کتنی تھی کیونکہ یہ جواز کافی نہیں ہے کہ لڑکی کے اشارہ کرنے سے یہ سب ہواا ۔ ہاں اس تحقیق کی ضرورت لڑکی کے لیے ہے اسے اس کے قصور کے مطابق سزا ملنی چاہیے کیونکہ اگلی بار کسی کے پاس ایسے واقعات کا جواز نہ عورت کا اشارہ ہو اور نہ شہرت کے لیے ایسے واقعات ہوں۔ سب کو پتہ ہو کہ غلطی کی سزا ملے گی۔ اس عورت اور مرد کارڈ سے نکل جانا جاہیے۔ یہ سب اس ملک اور معاشرے کے مجرم ہیں ۔ پچھلے کافی عرصے سے یہ رواج بن گیا ہے کہ ایک مظلوم عورت سامنے آتی ہے چند دن میڈیا اسے خوب اچھالتا ہے اور اس کے بعد میڈیا تصویر کے دوسرے رخ کے نام سے اس عورت سے جڑی کئی کہانیاں سامنے لے آتا ہے اور چند دن بعد کسی کو یاد ہی نہیں ہوتا کہ وہ کہاں سے آئی تھی اور کہاں گئی ۔ ان سب سے ایک مائنڈ سیٹ بن گیا ہے کہ جو لڑکی اپنی عزت کے لیے آواز اٹھائے وہ بد کردار ہے اچھی لڑکی پردہ ڈالتی ہے جس کی وجہ سے برے لوگوں کی حو صلہ افزائی ہو رہی ہے۔ اس لیے مجر م اور مظلوم پہ فرق کرنے کے لیے قانون کو تھوڑی سی زحمت اٹھانی چاہیے۔ مسئلہ صرف عورت کا اشارہ نہیں ہے ، یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے معاشرے میں عورت محفوظ نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے جب تک قانون کی بالادستی نہیں ہو گی اور عزت کے نام پہ آواز دبا دینے کا رواج رہے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
رومانہ گوندل کے کالمز
-
عورت محفوظ نہیں
بدھ 25 اگست 2021
-
یہ صرف ایک خبر نہیں تھی
پیر 16 اگست 2021
-
فرعونیت غرق کر دیتی ہے
ہفتہ 31 جولائی 2021
-
خواب زندہ رہتے ہیں
ہفتہ 17 جولائی 2021
-
ہم غیر جانبدار ہیں
جمعرات 8 جولائی 2021
-
اختتامِ رمضان
پیر 10 مئی 2021
-
روزے چھوڑیں، ثواب کمائیں
جمعہ 7 مئی 2021
-
بس تھوڑی سی برداشت
منگل 4 مئی 2021
رومانہ گوندل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.