عورت محفوظ نہیں

بدھ 25 اگست 2021

Romana Gondal

رومانہ گوندل

محرم الحرام کا مبارک مہینہ چل رہا ہے ہر طرف سے ہی کربلا کے شہداء پہ آنے والی مشکلات کا تذکرہ ہو رہا ہے، اس ملک کے جوانوں کو کر بلا والوں کے کردار کی مضبو طی کا سبق دیا جا رہا ہے ۔ اور ایسے میں چودہ اگست یوم آزادی پہ کئی ایسے غیر اخلاقی واقعات ہوئے ، خاص طور پہ مینار پاکستان پہ حیوانیت کی انتہا ہو گئی۔ جو ایک مہذب معاشرے کی جڑیں ہلا دینے کے لیے کافی ہے۔

سوشل میڈیا پہ اس واقعے پہ ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق بات کر رہا ہے ، اور بحیثیت اسلامی ملک کے پاکستان پہ دنیا بھر میں سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
پہلے دن جو خبر آ ئی اس میں ایک لڑکی کو مظلوم دکھایا گیا اور پھر اس کے بعد کئی انکشافات ہو رہے ہیں کہیں اس کے ساتھیوں کو مورد و الزام ٹھہرایا جا رہے ہے کہ یہ ان کا پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا ۔

(جاری ہے)

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک ڈرامہ تھا جو لڑکی نے اپنی شہرت کے لیے کیا ۔ کچھ لوگ اس لڑکی کو مظلوم تو مان رہے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ لڑکی کی کچھ غلطی تھی اسے پردہ کرنا چاہیے۔ سارا مسئلہ اس کی بے پردگی سے ہوا۔ دیکھا جائے تو اس مسئلے میں کہیں نہ کہیں یہ سارے عوامل ہی شامل تھے۔
 اس میں کوئی شک نہیں کہ لڑکی کو پردہ کرنا چاہیے تھا ۔

پردہ معاشرتی مسائل کو حل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ لیکن اگر وجہ صرف یہ ہے تو اس وقت یورپ میں تو کوئی عورت زندہ نہ ہوتی لیکن وہاں تو عورتیں اس سے بھی کم لباس میں گھومتی ہیں لیکن کچھ نہیں ہوتا۔ اس سے نظر آتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک بڑی و جہ قانون کی بالا دستی بھی ہے۔ کافر وں کے معاشرے میں جرم کرنے والے کو پتہ ہے کہ اسے سزا ملے گی اس لیے سکون رہتا ہے لیکن اسلامی ملک میں جنگل کا سا قانون ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔

واقعہ کے بعد وزیر اعظم اور وزیر اعلی خصوصی نو ٹس لینے کے بجائے ایسے قوانین بنا دیں کہ جرم کرنے والے کو پتہ ہو کہ وہ بچ نہیں سکتا ۔ جن معاشروں میں مجرم بچ جاتے ہیں وہ معاشرے کبھی پر امن نہیں ہوتے۔ تلخ ہی سہی لیکن سچ یہی ہے کہ سات دہائیوں کے بعد بھی ہمارے ملک میں ایسا نظام نہیں آسکا جس پہ قانون کی بالا دستی ہو ، جو اس معاشرے کو انسانوں کا معاشرہ بنا دیتا ۔


دوسرا بڑا مسئلہ ہمارے ہاں لوگوں کی یہ سو چ ہے کہ کر دار صرف عورت کا ہوتا ہے ۔ مرد کے لیے تو اتنا جواز بھی کافی ہے کہ عورت نے ایک اشارہ کردیا تھا تو چار سو لوگوں کے ہوش اڑ گئے ، حالانکہ ایک مسلم معاشرے میں کسی بے پردہ کے اشارے کا جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کوئی اس پہ چادر ڈال دے، کسی اشارے کے جواب میں منہ بھی پھیرا جا سکتا ہے۔ وہاں موجو د لوگوں کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تو اس تحقیق کی ضرورت نہیں ہے کہ لڑکی کی غلطی کتنی تھی کیونکہ یہ جواز کافی نہیں ہے کہ لڑکی کے اشارہ کرنے سے یہ سب ہواا ۔

ہاں اس تحقیق کی ضرورت لڑکی کے لیے ہے اسے اس کے قصور کے مطابق سزا ملنی چاہیے کیونکہ اگلی بار کسی کے پاس ایسے واقعات کا جواز نہ عورت کا اشارہ ہو اور نہ شہرت کے لیے ایسے واقعات ہوں۔ سب کو پتہ ہو کہ غلطی کی سزا ملے گی۔ اس عورت اور مرد کارڈ سے نکل جانا جاہیے۔ یہ سب اس ملک اور معاشرے کے مجرم ہیں ۔ پچھلے کافی عرصے سے یہ رواج بن گیا ہے کہ ایک مظلوم عورت سامنے آتی ہے چند دن میڈیا اسے خوب اچھالتا ہے اور اس کے بعد میڈیا تصویر کے دوسرے رخ کے نام سے اس عورت سے جڑی کئی کہانیاں سامنے لے آتا ہے اور چند دن بعد کسی کو یاد ہی نہیں ہوتا کہ وہ کہاں سے آئی تھی اور کہاں گئی ۔

ان سب سے ایک مائنڈ سیٹ بن گیا ہے کہ جو لڑکی اپنی عزت کے لیے آواز اٹھائے وہ بد کردار ہے اچھی لڑکی پردہ ڈالتی ہے جس کی وجہ سے برے لوگوں کی حو صلہ افزائی ہو رہی ہے۔ اس لیے مجر م اور مظلوم پہ فرق کرنے کے لیے قانون کو تھوڑی سی زحمت اٹھانی چاہیے۔ مسئلہ صرف عورت کا اشارہ نہیں ہے ، یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے معاشرے میں عورت محفوظ نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے جب تک قانون کی بالادستی نہیں ہو گی اور عزت کے نام پہ آواز دبا دینے کا رواج رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :