
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- صابر ابو مریم
- آخرآپ کو فلسطین سے پرابلم کیا ہے ; معروف کالم نگار کے نام
آخرآپ کو فلسطین سے پرابلم کیا ہے ; معروف کالم نگار کے نام
بدھ 9 دسمبر 2020

صابر ابو مریم
(جاری ہے)
آٹھ دسمبر کو لکھے گئے کالم میں معروف کالم نگار نے بہت مہارت کے ساتھ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا ہے اور ساتھ ساتھ پاکستان کی باوقار اور شجاع قوم کو بزدل اور ڈر جانے والی قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل کی پچاس سالہ تاریخ ہی کا مطالعہ کریں تو اسرائیل مسلسل شکست کھا رہا ہے اور اس بات کا اعتراف خود صہیونی خفیہ ایجنسی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے سنہ2018ء میں اسرائیل کے ایک ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے ۔ لیکن کالم نگار کی کوشش کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ شاید اسرائیل ہی دنیا کا خدا ہے اور اس کو راضی کئے بغیر شاید پاکستان آگے نہیں چل پائے گا ۔ (خاکم بدھن) ۔ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ ایک معروف قسم کا صحافی اور اینکر پاکستانیوں میں مایوسی پھیلانے کی کوشش میں مصروف نظر آیا ہے ۔
سوال اٹھا یا گیا ہے کہ آخر ہ میں کیا پرابلم ہے ۔ یعنی اسرائیل سے کیا پرابلم ہے ۔ کالم نگار صاحب اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے مسلمانوں کو اسرائیل سے کوئی پرابلم نہیں لیکن بس ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ فلسطین جو کہ فلسطینیوں کا وطن ہے ان کے پاس ہونا چاہئیے نہ کہ فلسطین ان صہیونیوں کا ہے جو یہاں لا کر قابض کر دئیے گے ہیں ۔ دنیا کے کسی بھی قانون میں اگر بات کی جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلسطین پر اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے ۔ اگر اسرائیل کا وجود اتنا ہی ضروری تھا تو فلسطین پر کیوں فلسطین تو پہلے بھی فلسطینی عربوں کا ہی تھا کہ جس میں مسلمان، عیسائی، یہودی کہ جو مقامی تھے اور صہیونی نہ تھے ۔ لہذا پرابلم یہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا اور اسرائیل ایک جعلی ریاست ہے جسے اپنے گھر جانا چاہئیے ۔ بہت ہی سادہ سی بات ہے ۔
کالم نگار کو تاریخ پڑھ لینی چاہئیے ۔ صہیونیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا ہے جی ہاں قبضہ کیا ہے ۔ کیونکہ انہوں نے پانچ ہزار سال کی جس تاریخ کا اپنے کالم میں ذکر کیا ہے اس کے مطابق بھی سرزمین فلسطین پر بعنوان اسرائیل کوئی ریاست قائم نہ تھی ۔ حتی فلسطین پر تو کیا فلسطین کے اطراف میں بھی ان پانچ ہزار سالوں میں اسرائیل نامی کوئی ریاست نہ تھی ۔ اسرائیل کی جعلی ریاست کا فلسطین پر تسلط انیسویں صدی کی اختتامی دہائیوں سے شروع ہوا اور جس کی تکمیل پھر سنہ1917ء کے بالفور اعلامیہ کے بعد1948ء میں ہوئی ۔
پاکستان کا ایک شہری ہونے کی حیثیت سے ہی اب سوال معروف صحافی سے ہے کہ چلئیے آپ بتائیے کہ فلسطین نے کسی کا کیا بگاڑا ہے کیا فلسطینیوں نے یہودیوں کے کسی وطن پر یا ان کی زمینوں پر قبضہ کیا ہے کیا ان کے وطن میں گھس کر فلسطینیوں نے فلسطین قائم کیا ہے یا یہ کہ فلسطینی مسلسل ستر سالوں سے اسرائیلیوں کو قتل کر رہے ہیں یا پھر چلیں یہ کہ فلسطینیوں نے اسرائیلیوں کی زمینوں کو ہڑپ کر رکھا ہے یا فلسطینیوں نے اسرائیلیوں کو دربدر کر دیا ہے ان سب باتوں کا اگر آپ جواب دے پائیں تو آپ سے صرف یہ سوال ہے کہ بتائیں آپ کو فلسطین سے کیا پرابلم ہے
موصوف نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ اسرائیل کی جنگ مسلمانوں سے نہیں بلکہ عربوں سے ہے ایک احمقانہ سی بات ہے ۔ آج کیا اسرائیل فلسطین پر اس لئے قابض ہے کہ فلسطین عرب علاقہ ہے کیا سیاسی اعتبار سے یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ اسرائیل کا اصل مقصد صرف اور صرف یہی ہے ۔ اگر مان بھی لیا جائے تو پھر اسرائیل نے لبنان پر قبضہ کیوں کیا تھا جو اسے بعد میں سنہ2000ء میں شکست کھا کر چھوڑنا پڑا ۔ اسی طرح شام میں دہشت گردی اور حملے اسرائیل کس کے لئے کرتا ہے عراق میں اسرائیل نے کیوں حملے کئے تھے مصر نے تو اسرائیل سے دوستی کر رکھی ہے تو کیا مصر کی مشکلات ختم ہو چکی ہیں کیا مصر ترقی کر رہا ہے ہر گز ایسا نہیں ہے ۔ میں پھر یہی کہوں گا کہ محترم کالم نگار صاحب تاریخ کو ٹھیک سے پڑھیں ۔ اسرائیل کی طاقت جو آپ پاکستانیوں کو دکھانا چاہتے ہیں وہ طاقت کچرے کا ڈھیر بن چکی ہے ۔ جو اسرائیل کسی زمانے میں عرب ممالک پر قبضہ کرتا تھا آج اس کی حالت غزہ کے علاقہ میں اس نوعیت پر پہنچ چکی ہے کہ فلسطینی نہتے مجاہدین کے سامنے دو گھنٹے سے زیادہ میدان جنگ میں ٹک نہیں سکتا ۔ آپ ہیں کہ اپنے کالم میں پاکستانیوں کو اسرائیل سے ڈرا رہے ہیں ۔ عجب ہے!
پاکستان کو یہ فخر اور اعزاز حاصل ہے کہ ہمارے ہوا بازوں نے اسرائیلی جہازوں کو مار گرایا ہے ۔ اسرائیل ہم سے خوف کھاتا ہے ۔ ہم کیوں اسرائیل کے ساتھ نتھی ہو جائیں آخر میں فلسطین سے کیا پرابلم ہے جبکہ اسرائیل ایک غاصب اور جعلی ریاست ہے ۔
اسرائیل کی ترجمانی کرنے والے ہر فردکو یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ چند ایک ایسے غیر اہم ممالک جن میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان و دیگر شامل ہیں ان کا اسرائیل کو تسلیم کر لینا نہ تو مسلم امہ کو فلسطین کی حمایت سے پیچھے ہٹا سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ نتھی کر کے نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے لئے نبرم گوشہ ہموار کرنے والے عناصر جہاں فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں وہاں ساتھ ساتھ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو بھی کھوکھلا کرنے کا گھناءونا جرم انجام دے رہے ہیں ۔ کالم نگار صاحب! آپ کے کالم کے مطابق آپ نے مسلم امہ کو مایوس کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے ۔ آپ نے پاکستان کو اسرائیل سے ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی ہے ۔ ہم آپ کو اس تحریر سے بتا دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل سے نہیں ڈرتا ۔ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عمل کو ذلت اور رسوائی تصور کرتا ہے ۔ فلسطین کی حمایت بانیان پاکستان نے کی ہے اور ہم فلسطین کے ساتھ رہیں گے یہی ہمار ا افتخار ہے ۔ کسی کو ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ پاکستان کے وقار کو خراب کرے چاہے وہ صحافی ہو یا کوئی نام نہاد دانشور ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
صابر ابو مریم کے کالمز
-
اسلام فوبیا کے مقابلہ میں دنیائے اسلام کا اتحاد ناگزیر
جمعرات 27 جنوری 2022
-
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم اصول جارحیت کی مذمت
جمعرات 30 دسمبر 2021
-
اسرائیل کے ساتھ دوستی اور امن کا خواب
اتوار 19 دسمبر 2021
-
اعلان بالفور اور فلسطینیوں پر مصیبت کے سو سال
منگل 2 نومبر 2021
-
انسانی حقوق اور مغرب کا دوہرا معیار
منگل 26 اکتوبر 2021
-
فلسطین کا مقدمہ اور اقوام عالم
منگل 28 ستمبر 2021
-
ہم پاکستانی ہیں۔پاکستان ہمارا ہے!
جمعرات 9 ستمبر 2021
-
ایران یا امریکہ: فاتح کون ہے؟
پیر 6 ستمبر 2021
صابر ابو مریم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.