
کسان نے ماں کیوں بیچی؟
بدھ 31 مارچ 2021

سعید چیمہ
آخر رحمتے بھی تو مجبور ہو کر اپنے شوہر کو مشورہ دے رہی تھی کہ زمین بیچ دو، یہ دوسری عید تھی جس پر بھی رحمتے اپنے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کو نئے کپڑے نہیں لے کر دے سکی تھی، اس کے بچے عید پر بھی ایسے گم سم تھے جیسے عمر سے پہلے ہی ان کے نحیف کاندھوں پر ذمہ داری کا بوجھ آن پڑا ہو یا وہ یتیم ہوں جو زمانہ کے حوادث میں چکر کھا رہے ہوں، کتنی ہی خوشیاں تھیں جو اللہ دتے کے خاندان سے معاشی تنگی کی وجہ سے روٹھ گئی تھیں، وہ شادیوں میں جانے سے گریز کرتے، عیدوں اور شبراتوں پر بھی ان کے ہاں خوشیوں کی شہزادی کا گزر نہ ہوتا، بس زندگی گزاری جا رہی تھی
اللہ دتہ ایک کسان تھا جس کی ملکیت میں چناب کے کنارے پانچ ایکڑ زمین تھی، خاندان کا گزر بسر انہی زمینوں پر ہوتا تھا، تین ایکڑ دھان اور گندم کی فصل کے لیے، ایک ایکڑ جانوروں کے چارے کے لیے جو اللہ دتے نے دودھ کے لیے پال رکھے تھے اور ایک ایکڑ سبزیوں کے لیے جو وہ خود بھی پکاتے اور کبھی شہر بیچ بھی آتے، سردیوں میں گوبھی، شلجم، پالک، میتھی، اور گاجر کا سالن ہی پکتا، گرمیوں میں سبزیاں تبدیل ہو جاتیں، دال وغیرہ تو مہینے میں ایک آدھ بار ہی پکتی اور گوشت تو شاید سال میں ایک مرتبہ، وہ بھی تب جب بقر عید کے موقعے پر کوئی سخی ان کے گھر دو چار بوٹیاں بھیج دیتا، دن تھے کہ پھرنے میں ہی نہیں آ رہے تھے، گزارہ پہلے بھی مشکل تھا مگر اب تو سیلاب نے جیسے اللہ دتے کی کمر ہی دوہری کر دی تھی، چناب میں ساون بھادوں کے مہینوں میں سیلاب کا خطرہ مچھروں کی طرح سر پر منڈلاتا رہتا ہے، سیلاب آیا اور اللہ دتے کی فصلوں کو تباہ کر گیا، سبزیاں بھی جاتی رہیں اور آدھے جانوروں کو بیماری کھا گئی، حکومت کی طرف سے نقصان کے ازالے کے لیے حکومت سے کچھ رقم بھی ملی، مگر اے سی میں بیٹھ کر دنیا کے مزے لوٹنے والوں کو کیا خبر کہ معمولی سی امداد سے کسان کے گھر کا چولھا نہیں جلتا، اس دنیا میں کسان کو شاید انسان نہیں سمجھا جاتا، پہلے جانوروں کو خوراک کو ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور اب شہری بابو کسانوں کو سمجھتے ہیں جو صرف پیداہی شہریوں کو خوراک مہیا کرنے کے لیے ہوتے ہیں، جن کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہوتی، جن کا اپنے اوپر کوئی حق نہیں ہوتا، جن کے سینے میں دل و جگر نہیں ہوتا، جو احساسات سے عاری ہوتے ہیں، اس کسان کی قسمت شاید کبھو نہ بدلے گی، اس مخلوق کو ہمیشہ ذلیل کیا جائے گا، بابو لوگ اس کو ثواب سمجھتے ہیں کہ کسانوں کا دل کھول کر استخصال کیا جائے، کون سا قیامت کے دن اس بات پر پکڑ ہو گی۔
(جاری ہے)
اولاد کی خوشی کے لیے تو والدین ایسی قربانی پیش کر دیں کہ چشمِ فلک ایسا نظارہ نہ دیکھے، اللہ دتے نے بھی اپنی زمین فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا، آخر والدین سے اپنے بچوں کے غم تو نہیں دیکھے جاتے، وہ صبح کا وقت تھا جب اللہ دتہ اپنی زمین پر سجدہ ریز ہوئے بلک رہا تھا، تڑپ رہا تھا، کہہ رہا تھا کہ وہ زمین جو مجھے ماں ایسی عزیز تھی، میں اس کو بیچ رہا ہوں، میں اپنی ماں کو بیچ رہاں ہوں، جب سجدے میں گرا اللہ دتہ تڑپ رہا تھا عین اسی لمحے قدسیوں کو حکم ہو رہا تھا میرا یہ بندہ جن حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے بلک رہا ہے ان کو بد بختوں کی لسٹ میں شامل کر دو۔
تحریر کی دُم: درویش خود بھی کسان کا پسر ہے اور اس کہانی کو آپ سچ سمجھیئے کہ گاؤں میں آج کل ایسا ہی ہو رہا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سعید چیمہ کے کالمز
-
خانیوال میں رجم ہوا آدمی
بدھ 16 فروری 2022
-
کرناٹک سے لاہور تک
اتوار 13 فروری 2022
-
سید الطائفہ—سلطان العارفین
منگل 8 فروری 2022
-
کہ قلم ملا تو بکا ہوا
جمعرات 23 ستمبر 2021
-
ملالہ کو روایات سمجھنا ہوں گی
بدھ 9 جون 2021
-
دریوزہ گری
جمعرات 20 مئی 2021
-
سنبھل جاؤ
ہفتہ 8 مئی 2021
-
ازار بند سے بندھی سوچ
ہفتہ 1 مئی 2021
سعید چیمہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.