کرناٹک سے لاہور تک

اتوار 13 فروری 2022

Saeed Cheema

سعید چیمہ

پچھلے دنوں یہ رحجان دیکھنے میں آیا کہ ملک کی مختلف جامعات نے طلبہ و طالبات کے لیے ہدایات جاری کیں کہ وہ یونیورسٹی میں جینز نہیں پہن سکتے۔ جینز پہننے پر پابندی کی جو وجوہات بیان کی گئیں وہ نہایت مضحکہ خیز تھیں۔ ان وجوہات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ایک مفروضہ قائم کرتے ہیں۔ فرض کیجیئے کہ اس پابندی کے باوجود ایک طالبہ جینز پہنے ہوئے بائیک پر یونیورسٹی آتی ہے۔

یہ ایک سرکاری یونیورسٹی ہے جہاں پر ایک سیاسی جماعت کے فرشتہ صفت مومنین کی اجارہ داری ہے۔ وہ لڑکی بائیک کو پارکنگ میں کھڑا کر کے وآپس پلٹتی ہے تو چند مومنین ہاتھوں میں برقعہ اٹھائے اللہ اکبر کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ نعرے بازی میں شدت لاتے ہوئے وہ لڑکی کے قریب آ جاتے ہیں۔ اس دوران ڈیپارٹمنٹ سے چند اساتذہ مومنین کے آگے آ کر لڑکی کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں (کہانی فرضی ہے اس لیے اساتذہ لڑکی کی مدد کر رہے ہیں وگرنہ یہاں ایسے موقعوں پر کسی کی مدد کرنا اپنی جان کھونے کے مترادف ہوتا ہے)۔

(جاری ہے)


اس سارے واقعے کی ویڈیو بنا کر کوئی انٹرنیٹ پر ڈال دیتا ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے ہی ٹاپ ٹرینڈ بن جاتی ہے۔ اب حقیقت کی دنیا میں وآپس آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب بھی پاکستانی اس لڑکی کی ایسے ہی حمایت کریں گے جیسا کہ مسکان کی کر رہے ہیں۔ جواب آپ بخوبی جانتے ہیں۔ اپنوں پر ہونے والے ظلم پر ہماری ایمانی حس ایسی بیدار ہوتی ہے کہ اوجِ ثریا کھائی میں معلوم ہوتا ہے۔

اور جب ہم کسی پر ظلم کرتے ہیں تو آنکھیں ایسی بند ہوتی ہیں کہ نقاروں پر پڑنے والی چوٹیں بھی ہاتھ سے گرنے والی سوئی کی مانند ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ابھی مسکان کے ساتھ جو ظلم ہوا اس پر مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کی طرف سے ایسی صدائے احتجاج بلند ہو رہی کہ مخالفین بہرے ہو رہے ہیں۔
اس کے برعکس جب کوٹ رادھا کرشن میں جب ایک مسیحی جوڑے کو زندہ جلایا گیا تو ایک محدود طبقے کے سوا سبھی کا رویہ ایسے تھا کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔

اسی طرح جب فیصل آباد میں دو نرسوں پر توہینِ رسالتﷺ کا الزام لگا کر انہیں زدو کوب کیا گیا تو ایک لا پرواہی کا عالم تھا۔ دونوں کی قسمت اچھی تھی جو پولیس پہنچی اور ان پر مقدمہ درج کر کے تھانے میں بند کر دیا۔ الزام لگانے اور زد و کوب کرنے والے صفِ عاشقاں میں پہنچے جب کہ زدو کوب ہونے والے پسِ زنداں۔مخالف جب غلطی کا مرتکب ہوتا ہے تو ہم پتھر کو ہمالہ بنا دیتے ہیں اور جب خود غلط کام کرتے ہیں تو قلزم کو قطرہ ۔

افراد سے لے کر قوم تک یہی رویہ دیکھنے کو ملے گا۔
اس رویے کو اگر کوئی منافقت سے تعبیر کرے تو احقر العباد کو اعتراض نہ ہو گا۔ ذرا غور کیجیئے کہ یہ منافقت کس سطح کی ہے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اسلامی نظامِ حکومت ہونا چاہیئے کیوں کہ مسلمان اکثریت میں ہیں اور نظامِ حکومت اکثریت کی بنیاد پر ترتیب دیا جائے گا چاہے اقلیت کے حقوق پر ضرب پڑتی ہو۔

اس دلیل کی بنیاد پر ہندوستان میں جب ہندتوا کی بات کی جاتی ہے تو ہماری بغلوں سے پسینہ بہنے لگتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف سازش ہے۔ ایک چیز جب تک ہمارے دامن میں ہے وہ پھول ہے جب یہی چیز مخالف کے دامن میں پہنچتی ہے تو کانٹا بن جاتی ہے۔
تیری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامئہ سیاہ میں تھی
یورپ میں برقعہ پہننے پر جب پابندی لگائی جاتی ہے تو ہم اسے ذاتی معاملے میں مداخلت قرار دیتے ہیں کہ لباس پہننا ہر کسی کا ذاتی حق  ہے وہ جو مرضی پہنے۔

جب جامعات جینز پہننے پر پابندی عائد کرتی ہیں تو ہم اس پابندی کے حق میں آوازے لگاتے ہیں۔ اس دہرے معیار کی وجہ سے ہم دوسروں کو اپنا مقدمہ نہیں سمجھا سکے۔ مخالفین کے لیے دلیل کی کسوٹی اور ہوتی ہے اور اپنے لیے کوئی اور۔
کرناٹک والے واقعے کو ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں۔ فرض کیجیئے کہ ہندوستان میں ایک مسلمان لڑکی نے جینز پہنی ہوئی ہے اور ہندو نوجوانوں کا ہجوم اس لڑکی کو جسمانی طور پر زد و کوب کرتا ہے۔

کیا ہماری دلیل یہ ہو گی کہ ہندو لڑکوں نے اس لیے زدو کوب کیا کیوں کہ لڑکی نے جینز پہنی ہوئی تھی۔ اس دلیل کو پسِ پشت ڈال کر ہم فوراً یہ کہیں گے جینز پہننے کا مطلب کیا یہ ہے کہ  لڑکی کو جسمانی طور پر زد و کوب کیا جائے۔ لیکن عین ایسے واقعات جب ہمارے ہاں رونما ہوتے ہیں تو ہم سارا ملبہ کپڑوں اور مغربی ثقافت پر گرا دیتے ہیں۔
جب نور مقدم کو اسلام آباد میں قتل کیا گیا تو اکثریت کی رائے یہی تھی کہ قتل کی ذمہ دار خود نور مقدم ہے۔

نہ وہ ادھر جاتی اور نہ قتل ہوتی۔ یہاں یہ دلیل ہم نے نہیں دی کہ کسی کے ہاں جانے کا کیا  یہ مطلب ہوتا ہے کہ اگلا ہمیں قتل کر دے۔ اسی طرح جب مینارِ پاکستان کے گراؤنڈ میں جب عائشہ اکرم کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو اس بار بھی ہم نے اگلوں کو مایوس نہیں ہونے دیا اور فوراً دلیل داغ دی کہ چوں کہ عائشہ نے اس واقعے کی خود پلاننگ کی تھی اس لیے جسمانی تشدد بالکل جائز تھا۔  اگر میں ایسا پلان بناؤں کہ کوئی آدمی چوری کا مرتکب ہو جائے تو کیا چوری کے بعد وہ آدمی یہ کہہ سکے گا چوری تو فقط آپ کے پلان کی وجہ سے کرنا پڑی وگرنہ تو میں باز رہتا۔ مگر ہم نے یہ دلیل نہیں دی۔ کیوں کہ ہم کبھی مایوس نہیں کرتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :