خانیوال میں رجم ہوا آدمی

بدھ 16 فروری 2022

Saeed Cheema

سعید چیمہ

سیدنا ابوبکر اور سیدنا عثمان اگر آج زندہ ہوتے تو کیا ان کو بھی پتھر مار مار کر قتل کر دیا جاتا؟ یا خانیوال کے مجاہدین اگر اس دور میں زندہ ہوتے تو ان دونوں ہستیوں کو قتل کر دیتے؟ کیا قرآن کے بوسیدہ اورق جلانا جرم ہے۔ چوں کہ پاکستان کے لوگوں کی اکثریت کے دماغ مذہبی انتہا پسندی نے بند کر رکھے ہیں اس لیے کوئی دلیل کارگر نہیں ہوتی۔

بخاری و مشکوٰۃ کی احادیث ملاحظہ ہوں۔
ریاستی سطح پر مصحف کی تدوین کے بعد سیدنا عثمان نے حکم جاری کیا کہ اس کے علاوہ جو مصحف کسی کے پاس ہو اس کو جلا دیا جائے (بخاری:4987، مشکوٰۃ:2221)۔
سیدنا ابوبکر نے بھی قرآن کے غیر مطبوعہ نسخے جلانے کا حکم دیا تھا۔ یہ بات مولانا وحیدالدین خاں صاحب کے شمارے "الرسالہ" میں پڑھی تھی۔

(جاری ہے)

ایک ذہنی معذور شخص کو امام مسجد کی رہ نمائی میں قتل کیا جانا کیا صور پھونکے جانے کی وجہ کو کافی نہیں ہے۔

  ظاہر سی بات ہے کہ امام صاحب قرآن اور حدیث کے عالم ہوں گے۔ لیکن اس علم کے بعد بھی اس بے دردی اور سفاکیت سے کسی کو قتل کر دینا۔ اگر قرآن اور حدیث کا علم حاصل کرنے کے بعد بھی کوئی شخص اس قدر ظالمانہ قتل کا مرتکب ہو تو پھر سوال تو اٹھے گا کہ لوگوں کو اس طرح قتل کرنا قرآن و حدیث سکھاتے ہیں یا قرآن و حدیث سکھانے والے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ 1997 میں گوجرانوالہ میں بھی پیش آیا تھا۔

انجنئیر محمد علی مرزا بتا رہے تھے کہ وہ تب یونیورسٹی میں طالب علم تھے۔ ایک حافظِ قرآن قرآن کے بوسیدہ اوراق جلا رہا تھا۔ لوگوں کو پتہ چلا اور پھر ایک ہجوم نے اس حافظِ قرآن کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ ہماری پچھتر سالہ تاریخ ایسے ہی واقعات سے عبارت ہے۔ کبھی غیر مسلم قرار دئیے جانے والوں کو قتل کرنا تو کبھی عیسائیوں کو بھٹے میں جلا دینا۔

کبھی غیر مسلم مینجر کو تشدد سے قتل کر کے لاش جلا دینا تو کبھی پتھر مار مار کے رجم کر دینا۔ پھر یہاں یہ رونا رویا جاتا ہے کہ مغرب اسلامو فوبیا کا شکار ہے۔
ہم میں اگر تھوڑی سی شرم و حیا کی رمق بھی باقی ہوتی تو ہم کبھی نہ کہتے کہ مغرب اسلامو فوبیا کا شکار ہے۔ ابھی ابھی انٹرنیشنل میڈیا میں اس واقعے کی رپورٹنگ دیکھ رہا تھا۔ تمام بڑے بین الاقوامی اخبار ،جن میں عرب کے مسلم اخبار بھی شامل ہیں، اس واقعے کو کور کر رہے ہیں۔

تقریباً تمام اخبارات اس نیوز کی تفصیل میں بتا رہے ہیں کہ اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ برس دسمبر میں بھی رونما ہوا تھا جب پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں ایک سری لنکن مینجر کو توہینِ رسالت کا الزام لگا کر قتل کر دیا گیا تھا۔ ایسے واقعات جب یورپ میں بیٹھا ہوا شخص پڑھے گا تو وہ کیا سوچے گا۔ کیا وہ یہ سوچے گا کہ اسلام تو بہت امن کا درس دیتا ہے لیکن کچھ لوگ  اسلام کی تعلیمات کی پیروی نہیں کرتے اور جذبات میں آ کر کسی کو قتل کر دیتے ہیں یا وہ یہ سوچے ایک نہتے شخص کو پتھروں سے مارنے والوں کو ضرور ان کی مذہبی تعلیمات نے سکھایا ہو گا کہ وہ جذبات میں آ کر اس طرح کسی کو قتل کریں۔


یہ جذباتیت اب لوگوں میں اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ اب کسی کے لیے بھی جان بچانا مشکل ہو گیا ہے۔ اس ملک میں قتل ہونے سے بچنے کے لیے صرف دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ آدمی قتل ہونے سے پہلے ہی قدرتی موت مر جائے۔ دوسرا یہ کہ اس ملک کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ کر کسی کافر ملک میں پناہ لی جائے ۔ اگر آپ ان دونوں راستوں میں کسی کا انتحاب نہیں کرتے تو اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کسی سال، کسی مہینے، کسی دن، یا کسی لمحے آپ قتل کر دئیے جائیں گے۔

لوگوں کے لیے یہ بات بہت آسان ہے کہ کوئی ایسی وجہ تلاش کی جائے جس کی بنیاد پر کسی کو قتل کر دیا جائے۔ یہ وجہ ایک عیسائی کا مسجد میں داخل ہونا بھی ہو سکتی ہے۔
مولانا عبد الوارث گِل ایک عیسائی تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے والدین ہمیں تلقین کرتے تھے کہ بیٹا کسی حال میں بھی مسلمانوں کے نبی اور ان کی بیویوں کا ذکر نہ کرنا وگرنہ قتل کر دئیے جاؤ گے۔

گِل صاحب کہتے ہیں کہ نوجوانی میں مجھے قرآن پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ میرے پاس قرآن نہیں تھا۔ میں قرآن لینے کے لیے ایک مسجد میں چلا گیا، اتفاق سے وہیں امام مسجد بھی بیٹھے تھے۔
میں نے کہا کہ حضرت مجھے ترجمے والا قرآن چاہیئے۔
تو کیا تمھارے گھر میں قرآن نہیں ہے، امام صاحب کہنے لگے۔
مولانا میں تو عیسائی ہوں تو کیسے ممکن ہے کہ میرے گھر میں قرآن ہو، میں نے کہا۔


امام صاحب نے سر سے پا تک مجھے گھورا، جیسے کہہ رہے ہوں کہ عیسائی ہو کر بھی مسجد میں آ گئے۔ بہت بڑے گستاخ معلوم ہوتے ہو۔ گِل صاحب کہتے ہیں کہ میں نے معاملے کی نزاکت بھانپی اور جلدی سے مسجد سے نکل آیا۔ ورنہ ممکن تھا کہ اس دن قتل کر دیا جاتا۔ آخر میں صاحبانِ دانش سے ایک سوال کرنا چاہوں گا، کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان میں بھی کوئی مصطفیٰ کمال پاشا پیدا ہو جو اس قوم کو صحیح ڈگر پر ڈال دے؟ تب تک تو قتل ہوتے رہیں گے اور قاتل غازی بنتے رہیں گے۔


جہاں قاتل غازی بنتے ہیں
جہاں مقتول گستاخ ٹھہرتے ہیں
جہاں منصف بھی لاچار ہیں
جہاں سب علماء تلوار ہیں
جہاں عصمت دری مردانگی ہے
جہاں زندہ بچنا حیرانگی ہے
جہاں اپنی مرضی جرم ہے
جہاں جاہل رہنا کرم ہے
جہاں بیٹی ایک مصیبت ہے
اور صرف بیٹا آنکھ کا تارا ہے
جہاں بیوی پاؤں کی جوتی ہے
اور ماں ہی دل کی ملکہ ہے
جہاں رکھتے لوگ بھرم نہیں
اور قتل کو سمجھتے جرم نہیں
میں اسی دیس کا شہری ہوں۔ہاں میں پاکستان کا شہری ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :