دریوزہ گری

جمعرات 20 مئی 2021

Saeed Cheema

سعید چیمہ

حکمران اگر دریوزہ گری کو بطور صفت اپنا لیں تو قوم میں دردِ دل رکھنے والوں کے ٹسوے بہانے سے بھی کفارہ ادا نہیں ہوتا، موجودہ حکمرانوں نے تو ویسے بھی پارسائی کی قبا زیبِ تن کر کھی ہے، نیک نیتی کا مکھوٹا پہن رکھا ہے اور باتوں میں تصوف کا فلسفہ شامل کیا ہوا ہے، دریوزی گری کا پہلا کاری وار قوم کی عزتِ نفس پر پڑتا ہے، جس سے اذہان کی تفکر و تدبر کی صلاحیت اچک لی جاتی ہے، یہی معاملہ ہمارے ساتھ بھی ہوا، بتدریج منزلیں طے کرتے ہوئے ہم نے خود کو زوال کے کھڈے میں گرا لیا ہے، جس سے نکلنے کی تدبیر فی الحال کسی کے پاس نہیں، ہر ایشو پر ہماری نظریں دیارِ غیر کی طرف اٹھتی ہیں، اپنا کوئی مؤقف ہم نہیں پیش کرتے، اگر کرتے ہیں تو آقا ناراض ہو جاتے ہیں، فوراً ہمیں اپنے مؤقف سے شکست خوردہ فوجوں کی مانند پسپائی اختیار کرنا پڑتی ہے، گزشتہ دنوں درویش بدنامِ زمانہ لیڈر کی آٹو بائیو گرافی پڑھ رہا تھا، اس لیڈر کو دنیا ایڈولف ہٹلر کے نام سے جانتی ہے، اور اس کی آب بیتی مائن کامپف (میری جد و جہد) کے عنوان سے شائع ہوئی ہے، مترجم نارائن ہیں جنہوں نے وہ قرض اتارا ہے جو ان پر واجب بھی نہیں تھا، آپ بیتی پڑھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے دردِ دل کو خونِ جگر سے الفاظ کی صورت میں قرطاس پر بکھیرا ہے، جنگ عظیم اول کو ختم ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا، جرمنی میں بھوک، ننگ، غربت، مصائب ایسے ہیں کہ انسانیت کی روشن جبیں پر سیاہ داغ لگنا شروع ہو گیا ہے، جگہ جگہ ہٹلر اس بات کی دہائی دیتا ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے ملک کے قرضے اتارنا ہوں گے، ان لیڈروں سے چھٹکارا پانا ہو گا قوم کی رہ نمائی جو  فقط اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کر رہے ہیں، جا بجا اس آپ بیتی میں ایک قوم کے خلاف ہٹلر کی نفرت اوجِ ثریا تک پہنچتی ہے، مگر تخریب کاری دور اندیشی پر غالب آتی ہے اور مائن کامپف میں حکمت کے موتی جڑنے والا دوسری جنگِ عظیم برپا کر دیتا ہے، تمام تر برائیوں کے باوجود بھی وہ شخص دریوزہ گر بننے پر آمادہ نہ ہوا، ملک کی مشکلات بھی اس کو کشکول اٹھانے پر آمادہ نہ کر سکیں، یہاں سوال یہ ابھرتا ہے ہمارے حالات جنگِ عظیم اول کے بعد کے جرمنی سے بد تر تو نہیں، یہ شاید قوموں کا مزاج ہوتا ہے جس سے قومیں ماضی سے رہ نمائی لے کر حال میں روشن مستقبل کے لیے عظیم فیصلے کرتی ہیں، مگر برِ صغیر میں بسنے والی قوموں کے مزاج میں تساہل پسندی ہے، جس سے یہ قومیں بڑے فیصلے ، جو تاریخ کا دھارا بدل سکیں، لینے میں کامیاب نہیں ہوتیں، قوموں کے مزاج کے بننے میں صدیاں بیت جاتی ہیں، مگر مزاج پھر بالآخر بدل جاتا ہے، پہلا قدم بہرحال اٹھانا پڑتا ہے، بعد میں قدرت کی ان دیکھی طاقتیں بھی مددگار ہو جاتی ہیں، اپنے ہاں مگر کوئی مردِ حر ایسا نہیں جو پہلا قدم اٹھانے پر قوم کو آمادہ کر سکے، جان ہتھیلی پر رکھنا آسان نہیں ہوتا، قربانی کا تقاضا حالات کرتے ہیں، اجنبی آواز جب بھی کسی معاشرے میں بلند ہوتی ہے تو راہ میں رکاوٹیں  دیواروں کی طرح کھڑی کر دی جاتی ہیں، بڑے لیڈر پھر چٹان بنتے ہیں، جن سے سمندر کی لہریں ٹکرا جاتی ہیں مگر ان کے عزائم متزلزل نہیں ہوتے، مصائب ان کے بازو شل نہیں کرتے، وہ قومیں ایسے لیڈروں کی حق دار ٹھہرتی ہیں جو ریاضت پر آمادہ ہوں، جو ماضی کے بھیانک کنوئیں سے نکلنا چاہیں،  یادل آویز عظمتوں کے خیالات کو جھٹکنے پر رضا مند ی ظاہر کریں، پُرکھوں کی روایات کے مخالف سفر کرنا آسان نہیں ہوتا، یہاں کوئی ناہنجار یہ سوال بھی اٹھا دیتا ہے کہ کون سی روایات، کون سے پُرکھے، وہی پُرکھے جو بیرونی ملکوں سے ہندوستان پر حملہ آور ہوئے تھے، ایسے پُرکھوں سے ہم اعلانِ برات کرتے ہیں، جو برگزیدگی میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھتے تھے، مگر اقتدار کی مسند کے لیے باپوں کو زندانوں میں ڈال کر درگاہوں کا رخ کرلیتے تھے، جو بھائیوں کی گردنیں اس اشتیاق کے ساتھ کاٹتے تھے جیسے اس کارِ خیر پر اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہو، آج بھی ہماری مقتدرہ میں انہی بادشاہوں کی باقیات ہیں، وہ اگر ظالم تھے تو یہ دریوزہ گر ہیں، وہ لوگوں کو بغیر مقدمات قائم کیے سزا کا حق دار ٹھہرا دیتے تھے تو آج سہولت ان کو یہ حاصل ہے محکموں کی کثیر تعداد مخالفوں کو مقدمات میں پھنسانے کے لیے ہمہ وقت کوشش میں رہتی ہے، اب تو جیسے آنکھوں کا نور ضائع ہونے لگا ہے، کتنی مدت سے مشرق کی طرف منہ کیے سورج کی پہلی کرن کا انتظار کیے جا رہے ہیں مگر ظلمت شب ہے کہ کٹنے میں نہیں آتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :