
کہ قلم ملا تو بکا ہوا
جمعرات 23 ستمبر 2021

سعید چیمہ
(جاری ہے)
اب اپنا معاملہ کچھ یوں ٹھہرا کہ لوگوں کی یاوہ گوئی سے بھی دلیل نکالنا فرض خیال کرتے ہیں، یہ گُر مولانا وحید الدین خاں صاحب کی تحاریر سے سیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تو مان لیا گیا کہ مسلمانانِ برصغیر غفلت و جہل کی دلدل میں پڑے ہوئے تھے۔ اوریا مقبول جان کہتے ہیں کہ انگریز کے یہاں وارد ہونے سے پہلے ستانوے فیصد مسلمان تعلیم یافتہ تھے۔ معلوم نہیں تعلیم سے مراد کیا ہے مگر آج کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی شاید ستانوے فیصد لوگ پڑھے لکھے نہ ہوں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ ستانوے فیصد تعلیم یافتوں پر دوسرے خطے سے آنے والے جاہلوں نے کیسے قبضہ کر لیا۔ کیا آپ کو خبر ہے کہ ہمارے گاؤں میں ایک بندے نے پہلی مرتبہ 1970 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ یہی معاملہ آس پاس کے دیہاتوں کا بھی تھا، شاید پورے برصغیر میں۔
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جو قوم اتنی زیادہ تعلیم یافتہ تھی وہ سو سال سے بھی کم عرصے میں جاہلین کا ٹولہ کیسے بن گئی۔ اتنی بلند تعلیمی شرح کے باوجود بھی ابنِ سینا، فارابی، رازی اور خیام جیسے لوگ کیوں نہ پیدا ہو سکے۔ تعصب کی آڑ میں قلم کو غلط بیانی (غلط بیانی کو جھوٹ سمجھنے والے ہوشیار تصور نہ کیے جائیں گے) کی اجازت دینا شاید غیر اخلاقی نہ ہو اس لیے اوریا صاحب ایسے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ اپنے نظریات کی آڑ میں دوسروں کی تضحیک کا سبق ہر کوئی لے چکا ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود سے لے کر دائیں بازو کے کسی مجاہد تک، ہر کوئی اس چاہ میں ہے مخالف کو ہر قیمت پر روند دیا جائے۔
اچھا خاصا معقول آدمی بھی ایسی صریح غلطی کا مرتکب ہوتا ہے کہ انگلیاں دانتوں تلے دابنی پڑتی ہیں۔ ہود بھائی کا بیان اچھا خاصا متعصبانہ ہے۔ دائیں بازو والے جب جینز پہننے والی لڑکیوں کو بے حیا کہتے ہیں تو یہی اختلاف ہوتا ہے کہ ایسے کسی پر فقرے اچھالنا منافی اخلاقیات کے ہے۔ یہی بات ہود بھائی سے بھی اختلاف کی ہے کہ حجاب یا برقع پہننے والیوں پر تبصرہ کچھ زیب آپ کو نہیں دیتا۔ پہلے کون سا کسی نے اپنے بیان کو وآپس لیا ہے جو ہود بھائی لیتے۔ یہ ڈگڈگی ایسے ہی بجتی رہے گی۔
تو پھر سوال یہ ہے کہ تم کیوں ماتھا پھوڑ رہے ہو؟ دریا کو سو کوس دور سے دیکھ کر نثر نگار کی طرح پائنچے کیوں نہیں چڑھا لیتے؟ دل کے کسی کونے میں نہاں ایک ادنیٰ سی خواہش یہی ہے کہ اس معاشرے میں روادری آ جائے۔ دائیں بازو والے جینز پہننے والیوں کو بے حیا نہ سمجھیں اور قبیل پرویز ہود بھائی کی حجاب پہننے والیوں کو دقیا نوس۔
پسِ تحریر: چلیں ہود بھائی نے جو بیان دیا سو دیا لیکن محترمہ کرن ناز نے کیا مبارک فعل سر انجام دیا۔ گورنمنٹ کالج کے زمانے میں ایک سبق یہ بھی سیکھا تھا کہ کچھ لوگ میڈیا میں شہرت کے لیے Publicity Stunt کریں گے، عام لوگ تو داد کے ڈونگرے برسائیں گے مگر تم پہچان لینا اور پھر ہم نے پہچان لیا۔ وہ پوچھنا یہ بھی تھا کہ کیا محترمہ کرن ہمیشہ کے لیے اب حجاب اوڑھا کریں گی؟ اور سوال تو یہ بھی ہے کہ ٹی وی پرآ کر حجاب پہننے کی ضرورت کیا تھی؟ گھر سے پہن کر آ جاتیں اور کہتیں کہ آج کے بعد میرے چہرے کو کالی چادر ڈھانپ لے گی اور نامحرم تو کیا چشم فلک بھی دیدار سے محروم رہے گا۔ پتہ نہیں کب جذبات کی شراب کا نشہ اترے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
سعید چیمہ کے کالمز
-
خانیوال میں رجم ہوا آدمی
بدھ 16 فروری 2022
-
کرناٹک سے لاہور تک
اتوار 13 فروری 2022
-
سید الطائفہ—سلطان العارفین
منگل 8 فروری 2022
-
کہ قلم ملا تو بکا ہوا
جمعرات 23 ستمبر 2021
-
ملالہ کو روایات سمجھنا ہوں گی
بدھ 9 جون 2021
-
دریوزہ گری
جمعرات 20 مئی 2021
-
سنبھل جاؤ
ہفتہ 8 مئی 2021
-
ازار بند سے بندھی سوچ
ہفتہ 1 مئی 2021
سعید چیمہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.