خواب جو خیال نہیں بنتے!

پیر 11 ستمبر 2017

Sajid Khan

ساجد خان

”ہم اپنی ذات کے کافر“ یہ شعری مجموعہ سید مبارک شاہ کا ہے جو اب ہمارے درمیان موجود نہیں۔ ان کا اک شعر ہے:
مکاں اپنی جگہ رکھے ہوئے ہیں
مکیں سارے ٹھکانے لگ گئے ہیں
موصوف ہماری نوکرشاہی کے ستون تھے۔ 2015ء میں انہوں نے پردہ فرما لیا۔ میں ان کی کتاب کے نام پر غور کررہا تھا۔ ان کی یہ کتاب 1995ء میں شائع ہوئی تھی۔

میں سوچ رہا تھا کہ مبارک شاہ نے ”ہم“ کیوں لکھا۔ مجھے اپنی ذات کے کافر کی فکر لگی رہتی ہے۔ میری ہی باتوں کو سن سن کر ایک دن میری نصف بولی ”بڑے کافر ہو تم“ بس وہ ہی زندگی کا حاصل لگا۔ یہ بات اصل میں خواب کی ہے کہ میں ڈاکٹر شائستہ کو کسی مسئلہ کے بارے میں رائے دے رہا ہوں اور وہ بڑے غصہ میں کہتی ہے بس۔ میں دوبارہ بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو پھر وہ ہی جواب ملتا ہے۔

(جاری ہے)

میں چپ سا ہوجاتا ہوں اور اداس ہوں تو محترمہ مسکرا کر کہتی ہیں ”بڑے کافر ہو تم“ اور اس کے ساتھ مجھے احساس ہوتا ہے کوئی مجھے اٹھنے کو کہہ رہا ہے۔
میں آنکھیں کھول کر دیکھتا ہوں کہ خواب کا تسلسل تو نہیں مگرکھلی آنکھ کے سامنے نظارہ اور تھا۔ میری نصف فرما رہی تھیں۔ اب آپ سوتے میں بھی سوچتے اور بولتے ہیں۔ میں نے حیرانگی سے پوچھاوہ کیسے۔

وہ فرمانے لگیں مجھے لگا آپ کچھ کچھ بول رہے ہیں یا پھردبا? پڑ گیا ہے سو میں نے آپ کو بیدار کردیا۔ میں اس کو خواب سنانے لگ گیا۔ وہ بولی۔ آپ کس مسئلہ پر واعظ فرما رہے تھے۔ وہ تو مجھے یاد نہیں آیا مگر میں نے اس سے شکایت کی۔ تم نے مجھے خواب میں بھی خاموش کروانے کی کوشش کی۔ وہ میرا خواب سن چکی تھی۔ شکر ہے مسکرائی اوربولی بس۔
میں بھی خاموش ہی رہا اور میری خواہش تھی کہ وہ مجھے کہتی ”تم بڑے کافر ہو“ کاش وہ مجھے پہچان لیتی۔

مجھے اپنی پہچان سے ہمیشہ ڈر لگا رہتاہے۔ اس دنیادار معاشرے میں اگرچہ پہچان ضروری ہے مگر مجھے اپنا بہروپ بہت ہی اچھا لگتا ہے۔ اس روپ اوربہروپ کے کارن لوگ احباب، مہربان، قدردان سب ہی میری تعریف و توصیف کرتے ہیں۔ میں بھی ان سے خلوص رکھتا ہوں۔ ہاں ذرا مخلص ہونا اور بات ہے۔
ایک تو اچھی نیند میرا مسئلہ ہے۔ اب میری نیند بہت کم ہوگئی ہے۔

اس کی شکایت بھی نہیں کرسکتا۔ معالج حضرات کا کہنا ہے سب ٹھیک سا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے مگر بے چینی، بے کلی، گھبراہٹ اورنیند کی کمی ضرور ہے۔ میری نصف کو یہ شکایت ہے کہ میں جاگتے میں بھی خواب دیکھتا ہوں۔ میرا اختلاف رائے ہے۔ میں خواب سوچتا ضرور ہوں اوردیکھ نہیں رہا اور نہ ہی نظر آتے ہیں۔ مگر نیند کے دوران جو خواب آتے ہیں کہ بتانے اورسنانے سے ڈر لگتا ہے۔

ہماری اس دنیا کے کتنے لوگ اور ناخدا مجھے خواب میں اپنی پہچان کرتے نظر آئے۔وہ زندگی میں کتنے مضبوط اور جابر لوگ اور ناخدا مجھے خواب میں اپنی پہچان کرتے نظر آئے۔وہ زندگی میں کتنے مضبوط اور جابر نظر آئے مگرمیرے خوابوں میں وہ بے بسی اورلاچاری کی تصویرنظرآئے۔ مجھے کبھی کبھی سیاسی خواب بھی نظر آتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی جب آصف علی زردای کی سرکار کے سابق وزیر رحمان ملک نظر آئے اس ہی روز بے نظیر کے قتل کا فیصلہ سنا یا گیاتھا۔

میں فیصلہ کے بارے میں سوچتا رہا تھا اور اس فیصلہ پر جناب رحمان ملک کا تبصرہ بھی سن چکا تھا۔ میں خواب میں دیکھا کہ ایک عدالتی کمرہ ہے۔ عدالت کے جج صاحبان کی پشت پر میں ہوں اور رحمان ملک سابق وزیر داخلہ بیان دے رہے ہیں۔ جج کی آواز کچھ کچھ خاتون نما ہے۔ مجھے ان کا سوال سمجھ نہیں آیا۔ مگر رحمان ملک کے چہرے پر ندامت اور پسینہ لگا۔ وہ کہہ رہے تھے۔

مائی لارڈ آپ کو میری اور حکومت کی مجبوری کا اندازہ ہے۔ ہم کیسے قاتل کا نام لے سکتے ہیں۔ ثبوت تو سب کے سب واضح ہیں۔ پھر جج نے کوئی سوال کیا۔ رحمان ملک بولے۔ مائی لارڈ دھماکہ کی آواز پر ہماری بھی جان پر بن گئی تھی اور فوراََ پھر وہ چپ ہوگئے۔ عدالت میں خاموشی تھی۔اس دفعہ جج کا سوال تھا۔ آپ نے دھماکہ کے بعد کسی چینل پر کہا تھا کہ ”بے نظیر محفوظ ہیں“۔

رحمان ملک خاموش رہے۔ جج دوبارہ گویا ہوا۔ آپ کے ساتھ دو اور لوگ بھی تھے۔ دھماکے کے بعد کہاں مصروف رہے۔ رحمان ملک خاموش تھے۔ پھر سوال ہوا آپ ہسپتال کب گئے۔ وہ لاچاری سے بولے جی میاں نواز شریف کے بعد وہاں گیا تھا۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اب میں سوچتا ہوں تو سارا خواب حقیقت نہیں ہے ۔ کچھ ایسا ہوا ضرور ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ رحمان ملک کسی عدالت میں گئے یا نہیں۔

میں نے اپنے خواب کا ذکر ایک اللہ والے سے کیا اور درخواست کی کہ خواب میں کتنی سچائی ہے۔ وہ مسکرائے۔ وہ بزرگ صاحب عالم ہیں۔ خبروں اور سیاست کی وجہ سے یہ خواب آیا۔ صرف ایک بات قابل توجہ ہے کہ خواب کی عدالت میں جج کون تھا؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا جج نے کوئی فیصلہ بھی سنایا ۔ مجھے بتانا پڑا۔ حضور خواب میرے نزدیک نامکمل ہے اور ہاں فیصلہ تو کوئی نہیں سنایا۔

صرف رحمان ملک سابق وزیرداخلہ سے بحث سی ہورہی تھی۔ وہ بزرگ کچھ دیر کو خاموش ہوگئے پھر بولے بے نظیر کے قتل کا معاملہ طے نہیں ہوسکتا۔ کچھ کچھ دوستوں اور مہربانوں کے نام آتے ہیں اصل میں عدالت کی جج مجھے بے نظیر لگتی ہے اور رحمان ملک ان کے سامنے کیسے حقیقت بیان کرتے۔ میں بزرگ کی بات سے متفق نہیں تھا۔ میں نے اظہار بھی کردیا ۔ آپ کا خواب ہے۔

پھر تعبیر کا بھی آپ ہی سوچیں۔ رہی آپ کی پسند کا مسئلہ۔ ایسے خوابوں کے لیے ادھوری نیند بھی کافی ہے۔
اب کس سے کہوں مجھ کو کیوں نیند نہیں آتی
روتا ہوا دیکھا ہے خواب میں خدا میں نے
مین اس فانی زندگی اور دنیا کے خوابوں سے پریشان بھی ہوں۔ مگر خوابوں کا کیا کروں، ان کو کیسے روکوں۔ ہماری اصلی زندگی میں سب کچھ صاف اور واضح ہے جرم بھی ہے ۔

عدالت بھی ہے۔ نظام بھی ہے اور اس کو چلانے والے سیاسی لوگ بھی ہیں مگر ان سب کا حل عوام کے خوابوں میں ہے۔ ستمبر کا مہینہ پاک بھارت جنگ کی وجہ سے کافی اہم ہوتا ہے ۔ سرحد پار کے باسی پھر جنگ وجدل کی باتیں کررہے ہیں۔ ان کو غرور اور گھمنڈ ہے۔ کسی صاحب کشف سے پوچھا گیا ۔ داتا کی نگری کے لوگ بھارت فوج سے کیا سلوک کریں گے تو ان کا جواب تھا۔ لاہور والے گدھوں کو کاٹ کر کھاجاتے ہیں ۔ کھال چین کو بیچ دیں گے اس لیے خطرہ کوئی نہیں۔ ان کو ایسے خواب دیکھنے دو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :