عشق مجازی سے عشق حقیقی

پیر 13 ستمبر 2021

Saleem Saqi

سلیم ساقی

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی انسان کو (خواہ پھر وہ پیغمبر خدا ہوں،ولی اللہ یا پھر کوئی عام انسان) کوئی بڑی زمہ داری سونپی جانا مقصود ہو تو اس انسان کو اس زمہ داری اٹھانے کے قابل بنانے کے کئے مختلف مراحل سے گزارا گیا
بالکل ویسے ہی جیسے اگر لوہے کو کسی خاص شکل میں ڈھالنا مقصود ہو تو اسے بھٹی کی آگ کو سہنا پڑتا ہے اور اپنی اصلیت کو گم کرنا پڑتا ہے لوہار کے ہتھوڑے کی ضربیں کھانا پڑتی ہیں تب جا کر وہ اس قابل ہوتا ہے کہ کسی دہلیز کی زینت بن سکے
اگر بات کریں عشق حقیقی کی تو عشق حقیقی کوئی کھیر یا حلوہ نہیں ہے کہ جسے ہر ایرا غیرا نتھو خیراکھا سکے عشق حقیقی کوئی عام لبادہ نہیں ہے کہ جسے جب چاہ تن پہ لٹکا کیا بلکہ یہ تو وہ شاہی پوشاک ہے جس کو تن پہ لٹکانے کے لئے"میں ہوں نا" سے "میں کچھ نہیں" کا سفر کرنا پڑتا ہے تب جسد خاکی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ عشق حقیقی کے دربار کی دہلیز کو چھو سکے
دراصل عشق حقیقی کی منزل بھی عشق مجازی سے ہو کر ہی جاتی ہے کیونکہ عشق مجازی بس ایک ڈھونگ ہے یا یوں کہہ لیں کہ عشق مجازی مسافر کی وہ پڑاؤ گاہ ہے جسے وہ اپنے حقیقی منزل تک پہنچنے کے لئے زرا سے دیری سستانے کے لئے استعمال کرتا ہے اور پھر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو جاتا ہے
دراصل خدا ہی انسان کو عشق مجازی میں ڈال کر عشق حقیقی کے لئے تیار کرتا ہے بالکل اسی طرح جیسے لوہے کو کسی خاص شکل میں ڈھالنے سے پہلے بھٹی میں جھونکا جاتا ہے
کیونکہ "عشق حقیقی سچ ہے سور عشق مجازی جھوٹ"
جب رب تعالی خود فرماتا ہے کہ دنیا فانی ہے اور ہم سب کا یہ ایمان بھی ہے کہ اس نے ایک نا ایک دن ختم ہو جانا ہے تو پھر یہ عشق مجازی جو کہ اسی دنیا کی پیدا کی ہوئی اسی دنیا کی چیز ہے تو یہ کیسے اور کیونکر زندہ رہ سکتی ہے؟
جب انسان عشق مجازی میں پڑ کر اس کی ٹھوکریں کھا کر کھا کر خود کو بالکل بیٹھتا ہے جب اسے چار سو ماسوائے مایوسی اور ناامیدی کے کچھ نظر نہیں آتا تب ایک وقت آتا ہے جب اللہ پاک اسے عشق حقیقی کا رستہ دکھا کر پکا پکا اپنی طرف مائل کر لیتے ہیں اور یہی وہ مقام ہوتا ہے
جب "جسد خاکی سے انالحق کی آوازیں آتی ہیں"
کیونکہ یہ مقام وہ مقام ہوتا ہے جب لوہا بھٹی کی تپش سہہ سہہ کر اب اس قابل ہو چکا ہوتا ہے کہ اسے ایک آخری کاری ضرب لگا کر اسکی آخری شیپ میں ڈھالا جائے
جب انسان عشق حقیقی کی دہلیز کے اندر داخل ہو جاتا ہے پھر کیا لیلی اور کیا ہیر کیا شیری اور کیا فرہاد پھر تو اس کے تن بدن سے بس ایک ہی آواز آتی ہے
"اناالحق"
کیونکہ اس ٹھوکر کے بعد وہ پھر کبھی لڑکھڑاتا نہیں ہے بلکہ لڑکھے ہوؤں کو سہارا دیتا ہے اور بیشک یہی اصل ہے انسان کی جسے وہ اس دنیا کی رنگ رنگینیوں میں کھو کر بھول جاتا ہے۔

۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :