کہاں کھو گیا وہ برگد کا پیڑ پرانا

ہفتہ 24 اپریل 2021

Saleem Saqi

سلیم ساقی

اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ایک طرف اگر دنیا نے ترقی کی ہے وہیں دوسری طرف اس ترقی کے پس پشت ہم نے اپنی اصلیت کہیں گنوا دی ہے
ہم کیا تھے کیسے تھے اور کب تھے ان سب کا جواب شاید ہی کوئی دے پائے شاید کوئی نائنٹین کی دہائی کا مکھن اور دیسی گھی کا پلا بڑا دے پائے۔
کل شب بابا جانی کے پاس بیٹھے بیٹھے باتوں ہی باتوں کا باتوں کا رخ گاؤں کی کچی سڑکوں کی جانب موڑتے ہوئے میں نے ایک سوال داغا
بابا جانی مجھے اس وقت کے بارے میں کچھ بتائیں جب گھر کچے لیکن رشتے پکے ہوا کرتے تھے،جب گاؤں کے کچے رستوں سے اڑتی دھول مٹی سے لباس تو گدلا ہوتا تھا لیکن من صاف شفاف ہوا کرتا تھا،آج اس دور کے بارے میں بتائیں جب لڑکیاں کھوہ(کنواں) سے پانی بھرنے جایا کرتی تھیں،وہ دور جب گاؤں کے برگد کے پیڑ کے نیچے پنچائیت بیٹھا کرتی تھی۔

(جاری ہے)


بابا جانی مخاطب ہوئے
دیکھو بیٹا اگر کہا جائے تو کیا سہانا دور تھا جب صبح فجرے فجر کی اذان کے ساتھ جاگا کرتے تھے،نماز فجر ادا کرنے کے بعد درانتی اور سلیتا(بوریوں کا بنا کارپٹ)بغل میں دبائے کھیتوں کا رخ کیا کرتے تھے پھوہ پھوٹنے تک بھینسوں کے لئے چارہ کاٹ کر واپس گھر کو لوٹ آیا کرتے تھے۔گھر لوٹنے کی دیری ہوتی تھی کہ آگے آپ کی دادی دیسی گھی کر پراٹھے اوپر ایک اچھا خاصہ پاؤ ڈیڑھ پاؤ کا مکھن کا پیڑا رکھ کر ہمارے سامنے رکھ دیتی تھی کہ کھاؤ جان بناؤ تاکہ اچھے سے صحت بنے اور کام کر سکو۔


وہ دور جب چائے کی جگہ لسی سے سیوا کی جاتی تھی،اگر بات کی جائے گرمیوں کے موسم کی تو دوپہر کے وقت جب چار سو سورج آگ کے گولے برسا رہا ہوتا تھا سبھی گاؤں والے(بچے،بزرگ،خواتین) گاؤں کی بیرونی طرف اگے ایک قد آور و تاریخی برگد کے پیڑ کا رخ کیا کرتے تھے موسم گرما میں دوپہر کے وقت یہ برگد کا پیڑ آج کے دور میں بنے بازاروں کا روپ پیش کرتا تھا سینکڑوں کی تعداد میں بیٹھے لوگ آپس میں چہمگوئیاں کرتے،برگد کا یہ پیڑ کبھی کانفرنس ہال تو کبھی ڈسکشن پوائنٹ کا روپ دھار لیتا صرف یہی نہیں یہ سبھی لوگ دل چاہے تو یہی لم لیٹ ہو کر لمبی تان کر سو جاتے اور شام کے وقت گھر کو لوٹتے۔


جہاں تک بات ہے تمہارے کئے گئے اس سوال کی کہ کھوہ(کنواں) پر لڑکیاں جب پانی بھرنے جایا کرتی تھی۔
بیٹا وہ منظر بہت ہی روح پرور ہوا کرتا تھا پنڈلیوں اور سروں پہ اٹھائے گھڑے روایتی لباس میں ملبوس گاؤں کی کمسن لڑکیاں اور عورتیں جب پانی بھرنے کی غرض سے گاؤں کی منڈیر پر واقع کھوہ(کنواں)کا رخ کرتی تھی تو گویا کہ نائنٹین کی دہائی کی کسی بلیک اینڈ وائٹ فلم کا سین لگتا تھا۔


کھوہ(کنواں) صرف پانی بھرنے کے کام نہیں آتا تھا بلکہ بعض واقات پانی کھینچنے کی غرض سے کھوہ کے ساتھ باندھے گئے بیلوں کے پیچھے لگی پٹھی پر بیٹھ کر گاؤں کے چھوٹے بچے جھولے لیا کرتے تھے،اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ کھوہ اب کے واقع پارک کی جگہ استعمال ہوتا تھا،
چونکہ برگد کا پیڑ اسی کھوہ کی منڈیر پر واقع تھا تو جب کبھی برگد کے پیڑ کے نیچے محفل سجتی اور کوئی خوش آواز بندہ اپنی میٹھی آواز میں وارث شاہ کی لکھی داستان ہیر رانجھا پڑھتا تو اس کھوہ کے ارد گرد اڑنے پھرنے والے جنگلی کبوتروں کی غٹرغوں اور کوئل کی کوکو پیچھے سے گویا ہلکا ہلکا میوزک دینے کا کام کرتی تھی جسے سن کر ہر ایک بشر مدہوشی کی وادیوں میں کھو جایا کرتا تھا۔


لب لباب بیٹا کہنے کو کہوں تو وہ دور واقع بہت پرکشش اور سہانا تھا لیکن نجانے کیسے اور کیونکر ہم نے وہ دور جو اصل میں صرف دور نہیں بلکہ ہماری اصلیت تھی ہماری پہچان تھی ہم نے گنوا دی ہم نے سکون گنوا دیا۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :