''جسد خاکی یہ ستم نہیں اچھا''

منگل 4 مئی 2021

Saleem Saqi

سلیم ساقی

آج خلاف معمول افطار کے چند منٹ بعد جیسے ہی موبائل جیب سے نکال کر ایف بی آن کی نیوز فیڈ تو جیسے کسی اعلی و اونچے درجے کی ہوٹل کے ایڈورٹائیزمنٹ بینر کا روپ دھارے ہوئے تھی کہیں افطار ٹائم کے ہیش ٹیگ کے ساتھ رنگا رنگ کھانوں سے میز سجی تھی تو کہیں مختلف قسم کے رکھے مشروبات آنکھوں کو خیر بخش رکھ رہے تھے کہیں چھوٹے بچے رشین سیلڈ سامنے رکھے سیلفیز لے رہے تھے تو کہیں جوان بچیاں فروٹ چاٹ کی بھری چمچ ہاتھ میں پکڑے کہہ رہی تھیں آج ہمارے ہاں تو یہ سب طعام ہوا ہے آپ کے ہاں کیا صورتحال ہے/تھی وغیرہ وغیرہ۔


بظاہر یہ چیزیں معمولی سی ہیں معمول سے مطلب یہ کہ یہ سب چیزیں صرف رمضان میں ہی نہیں بلکہ عام دنوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں اور بے تحاشہ توجہ کا مرکز بنتی ہیں کیونکہ کمنٹس میں لمبی لمبی لکھ کر چھوڑنے سے کسی کا کونسا بل آ جاتا ہے لیکن رمضان میں خاص طور پر ایسے چھچھورے کام لوگ زور و شور سے کرتے ہیں اور نہ صرف کرتے ہیں بلکہ خود کی امیریت اور باقیوں کی غریبیت پر من ہی من میں خوب قہقے لگا کر ہنستے بھی ہیں۔

(جاری ہے)


جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ خدا نے انسان کے لئے لفظ اشرف المخلوقات استعمال کیا ہے یعنی تمام تر جِیو جَنتُوں سے اشرف(اعلی) بلند مرتبے والا اگر خدا نے ہمیں اتنا بلند و بالا مرتبہ سے نوازا ہے تو ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ گھٹیا پنتی کا مظاہرہ نہ کیا جائے ایسے کام نہ کیئے جائیں جن سے ہماری اصل پر حرف آئے۔
خدا نے انسان کو مختلف زاتوں اور مختلف درجوں میں پیدا کیا ہے جہاں ایک طرف کچھ لوگ بہت زیادہ امیر ہیں تو وہیں دوسری طرف کچھ لوگ بہت غریب بھی ہیں اگر ایک گھر میں تین وقت سات رنگ کے کھانے پک رہے ہیں تو دوسری طرف اسی اثنا میں دوسرے گھر کے سربراہ(میاں بیوی) اس سوچ میں آپس میں سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ آج کی دوپہر/شام کا کھانا کیسے پکے گا ؟کیا ہمارے بچے آج دوپہر بھی بھوکا سو کر گزاریں گے؟
لیکن ان تمام تر باتوں کا احساس ہونے کے لئے بھی احساس ہونا لازم ہے۔


مجھے تو ایسے لوگوں کی بے وقوفی پر ہنسی اور انکی اصل پر شک ہوتا ہے آیا کہ یہ کون لوگ ہیں جو خود کے جیسے ہی بشر کی ہی تذلیل کیے جا رہے ہیں اگر ہم پل بھر کو سوچیں تو کھانا ہم اپنی زات کے لئے خود کا پیٹ بھرنے کے لئے کھاتے ہیں تو پھر کھاتے سمے پکس اور سیلفیز لینا یہ کہاں کی سمجھداری ہے کہاں کی تہذیب ہے؟ اگر ہم کسی غریب کا پیٹ پال نہیں سکتے تو ہمیں یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ ہم کسی کی غریبی کو خود کی امیری تلے روندتے پھریں جس رب نے تمہیں کھانے کو اتنا دیا اسی رب نے ہی انھیں بھی پیدا کیا ہے تو اس میں ہمارے فخر کرنے اور نازو نخرے کرنے کا کیا تک؟ گر ہم غریب کی دعا نہیں لے سکتے تو ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ انکی ہاہ بھی نہ لی جائے وگرنہ ہمارا سب چھن کر اگر خدا نے انھیں دے دیا تو؟کیونکہ اکڑ/غرور/تکبر یہ صفت صرف خدا کی ہے اور اسی کو جچتی ہے۔


ایسے چھچھورے پن امیروں کی اصلیت اگر پھرول کر دیکھی جائے تو پتا چلتا ہے کہ گھر کی رسوئی میں اتنا سب کچھ پکنے کے باوجود انکے گھر کام کرنے والی ملازمہ کے بچے رات بھوکا سوتے ہیں سبھی نہ سہی لیکن اکثر ایسا ہوتا دیکھا گیا ہےکیا فائدہ ایسی نمائش کا جب خودی کے نیچے کام کرنے والوں کو ستائش میسر نہ ہو چلیں باقیوں کا سوال آپ سے نہ سہی لیکن انکا سوال تو بنتا ہے جو آپ کی امیری تلے غریبی کی زندگی گزار رہے ہیں۔


یہ ''ہاتھی کے دانت کھانے کے اور اور دکھانے کے اور'' والا معاملہ آخر کیوں کر؟
حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث مبارکہ ہے کہ
ترجمہ۔اپنے دستر خوان کو وسیع کرو
اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انھوں نے ہم سے یہ کہا ہے کہ اپنے میز کو رنگ برنگے کھانوں اور مختلف انواع و اقسام کے مشروبات سے بھر کر میز کو وسیع کرو کیونکہ آجکل کے دور میں میز ہی دسترخوان کے زمرے میں آتا ہے نہیں ایسا بالکل نہیں بلکہ آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد مبارک ہے اپنے دسترخوان کو صرف خود تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ اسکا دائرہ وسیع کریں یعنی آپ کے پھیلائے دسترخوان سے صرف آپکا ہی نہیں بلکہ آپ کے گرد بسنے والے غریب مسکین اور یتیم کا بھی پھیٹ بھرنا چاہیے
کوشش کیا کریں ایسی تمام تر باتوں سے بچا جائے ایسے تمام تر کام کرنے دے گریز کیا جائے جس سے کسی کی دل آزاری ہو وگرنہ کس کا دل نہیں کرتا کہ اس کے گھر میں بھی ڈائننگ ہال سجے میز لگا ہو سائیڈ میں چاروں اور کرسیاں لگی ہوں میز پر ہر طرح کے کھانوں کی فراوانی ہو نہیں بلکہ ہر ایک کا دل چاہتا ہے بس خالی دل داری سے کام نہیں چلتا جیب داری بھی چاہیے ہوتی ہے لیکن قسمت کے مارے آخر کریں بھی تو کیا۔

۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :