رمضان کو بخشش کا فرمان کیسے بنائیں؟

منگل 27 اپریل 2021

Saleem Saqi

سلیم ساقی

ہم سب نے دیکھا ہے نہ صرف دیکھا بلکہ تہ دل سے تسلیم بھی کر لیا ہے کہ جیسے ہی رمضان آئے گا مہنگائی سر چڑھ کر بولے گی اور تاجران برادری کا آم کے آم گھٹلیوں کے دام والا معاملہ ہو گا اصل میں ہم نے دین کو مذاق سمجھ لیا ہے اور وجہ یہ ہے کہ خدا نے ہماری سرکشی کو ڈھیل دے رکھی ہے خدا دیکھ رہا ہے کہ شاید یہ سدھر جائیں اور سیدھے رستے آ جائیں مگر ہم ٹھہرے ازل سے پاپی۔


ہم نے خدا کے احکامات کے مطلب کو غلط اور اپنے مفاد کے حساب سے بدل دیا ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے
''ناپ تول میں کمی مت کرو''
ضروری نہیں کہ صرف لکھے ہوئے لفظوں کو ہی پڑھ کر جو ذہن میں بات آئے سمجھ آئے بس وہی کرنا ہے نہیں بلکہ ہمارا حق بنتا ہے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس بات کی تفسیر میں جائیں اسکی تشریح کریں اس بات کے مفہوم کی بند گرہ کو اپنی عقل کو استعمال میں لاتے ہوئے کھولیں کہ آیا کہ خدا ہم سے کہنا کیا چاہ رہا ہے
ہم نام نہاد مسلمانوں نے ناپ تول کی کمی کو بس ترازو کے پلڑوں کے اتار چڑھاؤ تک محدود کر دیا ہے اگر دیکھا جائے تو یہ فرمان صرف چیزوں کے ناپنے تک لاگو نہیں ہوتا بلکہ اسکا اطلاق چیزوں کے نرخوں پر بھی لاگو ہوتا ہے چیزوں کی اچھی اور بری کوالٹی پر بھی ہوتا ہے
رب کا فرمان ہے ناپ تول میں کمی مت کرو اگر ہم اسکا اطلاق چیزوں کے نرخوں پر کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جتنی چیز آپکو ملی ہے تھوڑا بہت جائز منافع رکھ کر چیزوں کو بیچا جائے نہ کہ سو کی چیز کو تین سو کے بھاؤ بیچا جائے
اگر ہم اس فرمان کا اطلاق چیزوں کی کوالٹی پر کریں تو سنیں رب کیا فرماتا ہے کہ اچھی کوالٹی کے پیسے لے کر نرم یا گھٹیا کوالٹی کی چیز نہ بیچی جائے
اب اگر ان تمام تر فرمانوں کو ایک سائیڈ رکھ کر ہم خود کے معاملات اور لین دین پر غور کریں تو شاید چلو بھر پانی لے کر ڈوب مرنے کا مقام ہو گا
ہم تو ڈھونگ پیٹتے پھرتے ہیں کہ رمضان المبارک میں شیطان قید کر لیا جاتا ہے تو پھر رمضان میں آپ کی اس شیطانی سوچ کے پیچھے کس کا ہاتھ ہوتا ہے؟ ناجائز منافع خوری،دھوکہ دہی، ڈنڈی مارنا یہ سب چیزیں ہم خودی کے بل بوتے ہی سر انجام دیتے ہیں
روزہ رکھ کر ناجائز منافع کمانا کہاں کہ دین داری ہے بھئی؟
روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزہ نام ہے تقوی کا روزہ نام ہے عبادت کا روزہ نام ہے پرہیز گاری کا اور تقوی جسے ہم عموما پرہیز گاری بھی کہتے ہیں پرہیز گاری صرف نماز حج زکوہ ان چیزوں کا نام نہیں ہے بلکہ پرہیز گاری یہ ہے کہ آپ کے ہاتھوں کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے کسی دوسری مسلمان کی دل آزاری نہ ہو کسی مسلمان کو ٹھیس نہ پہنچے اور جہاں تک بات ٹھیس کی ہے تو ٹھیس صرف زخم لگنے سے ہی نہیں پہنچتی بعض دفعہ اندرونی ٹھیسیں بھی آ جایا کرتی ہے
جیسا کہ رسول خدا کا فرمان ہے جسکا مفہوم ہے
''بعض روزے داروں کا روزہ ماسوائے بھوکے رہنے کے انھیں اور کچھ نفع نہیں دیتا''
یہ ناجائز منافع خور تاجر اور ڈنڈی مارنے والے سب دکاندار اسی زمرے میں آتے ہیں اس فرمان کی گہرانی ناپیں تو کیا سمجھنے کو ملتا ہے کہ ایک بندہ سحری وقت جاگ کر روزہ رکھتا ہے دن بھر بھوکا پیاسا بھی رہتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ دن کے وقت کوئی ایک آدھ نماز بھی پڑھ ہی لے لیکن شام کے وقت وہ روزہ داروں کے ساتھ ٹھگی کرتا ہے انکا حق مارتا ہے انھیں لوٹتا ہے ان سے ناجائز منافع کماتا ہے تو ایسے لوگوں کا روزہ ماسوائے اس کے کہ وہ بھوکا رہا اور کچھ نہیں ہے
یہ بات تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ حقوق اللہ سے ذیادہ حقوق العباد کی اہمیت بہت زیادہ ہے اب اگر حقوق العباد کے منافی کام کر کے ہم نماز پڑھنے جائیں تو کیا ہماری عبادت قبول ہو گی؟؟
میرے اس سوال پر کئی لوگ یہ انگلیاں اٹھائیں گے کہ وہ غفور الرحیم ہے بخشنے والا ہے میں بھی مانتا ہوں کہ وہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے لیکن سرکشی پہ اترے ہوئے کو اس نے عذاب کی دھمکی بھی دے رکھی ہے
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے خدا کے عطا کیے ہوئے رحمتوں اور برکتوں والے اس مہینے میں خدا کو راضی کیا جائے اور اپنی بخشش کروا لی جائے کیا خبر اگلے سال جب رمضان آئے اور ہم نہ ہوں۔

(جاری ہے)

۔
سال کے باقی گیارہ مہینے ہم گانے سنتے ہیں چغلیاں کرتے پھرتے ہیں برائیاں کرتے ہیں نجانے اور کتنے گناہ صغیرہ و کبیرہ انجام دیتے ہیں ہمارا حق بنتا ہے کہ کم سے کم رمضان کے مہینے میں ان تمام تر چیزوں سے کنارہ کشی کی جائے قرآن کی تلاوت کو اپنا معمول بنایا جائے کوشش کیا کریں کہ رمضان کے ان تیس دنوں میں کوئی لمحہ ایسا ہاتھ سے جانے نہ پائے جب آپکی زبان ذکر و ازکار سے تر نہ ہو عبادت کو اپنا معمول بنائیں۔


یوں تو رمضان کے تیس دن ہی عبادت اور ذکر و ازکار میں گزارنے چاہیے لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں خصوصا ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم جاگ کر رات بھر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کریں کیوں کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلتہ القدر کی نوید ہے اک ایسی رات جس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا
خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے
ترجمہ۔

بیشک ہم نے قرآن کو لیلتہ القدر میں نازل کیا۔
اس مبارک رات میں ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے خدا کو راضی کریں اسکا حکم بجا لائیں۔
نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا جنت میں ایک دروازہ ہے جسکا نام ریان ہے قیامت والے دن ماسوائے روزہ دار کے اور کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکے گا قیامت والے دن فرشتہ پکارے گا کہاں ہیں روزہ دار ادھر آؤ اس دروازے سے داخل ہو جاؤ پل بھر کو سوچو کیا دل فریب منظر ہو گا اس لئے ہمیں چاہیے اس فانی دنیا کے پیچھے لگ کر اپنی ابدی زندگی کو تباہ نہ کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :