لیبرز ڈے

ہفتہ 1 مئی 2021

Saleem Saqi

سلیم ساقی

ابو جان دیکھیں نا عید قریب سے قریب تر آتی جا رہی ہے میرے سبھی دوستوں نے عید کے لئے نئے کپڑے خرید لئے ہیں نوفی کہہ رہا تھا کہ حکومت نے حکم جاری کیا ہے عید کی شاپنگ جلد سے جلد کر لیں ہو سکتا ہے ملکی حالات کے پیش نظر عید سے ہفتہ پہل شاپنگ پر پابندی عائد کر دی جائے۔
وہ کسی طوطے کی طرح فر فر اپنے والد سے تمام تر باتیں کئے جا رہا تھا اور اسکا والد اسکی رواداد سن کر سوچ کی اک گہری کھائی میں جا گرا تھا کیونکہ ایک تو رمضان المبارک کی وجہ سے جہاں پہلے ہی دیہاڑی ملنا بہت مشکل کام ہے اوپر سے کورونا الگ سے گلے کا طوق بنا ہوا ہے ایسے میں عید کی شاپنگ کرنا تو دور اسے یہ فکر بھی اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی کہ اگر کل بھی دیہاڑی نہ ملی تو گھر فاکوں کی نظر ہو جائے گا
یکم مئی جسے لیبر ڈے کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے اور عالمی چھٹی منائی جاتی ہے کسی بھی عالمی چھٹی کا مطلب ریسٹ نہیں ہوتا کہ چلو جی چھٹی مل گئی کیوں نا ریسٹ کی جائے بلکہ ہر عالمی چھٹی کسی مخصوص شخصیت،مخصوص ایونٹ یا کسی مخصوص طبقے سے لنکڈ ہوتی ہے اور عام عوام کو اس چھٹی کی وجہ بتا کر اس بات کی آگاہی اور شعور پیدا کیا جاتا ہے کہ آیا کہ اس کے پیچھے مقصد کیا ہے
اگر ہم یکم مئی کی بات کریں تو اسکا مقصد مزدور طبقے کی فریادیں سننا انکی داد رسی کرنا اور ایک نامور شخصیت یا وڈ وڈیرےکی حیثیت سے انکے حکومت پر عائد حق و حقوق کو حکومت سے لے کر ان تک پہنچانا ہے یعنی مزدور طبقے کی آواز بننا باتیں مزدور کی ہوں لیکن ہم انکی آواز بن کر بولیں انکے مسائل کا حل ڈھونڈیں انھیں حل کریں اور ان غرباء مساکین کی دعا لیں
لیکن اگر ہم حالات حاضرہ کو دیکھیں تو افسوس صدافوس کہ دن مزدور کا ہوتا ہے لیکن اپنے ہی دن پر وہ کام پر جاتا ہے اور ہم باقی عوام چھٹی مناتے ہیں چلیں پل بھر کو اگر ان تمام تر باتوں کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے حق حقوق داد رسی کو بھی سائیڈ رکھ دیں اور غور کریں آیا کہ کیا ہم اپنے ذاتی معاملوں میں جہاں ہم اپنے مفاد اپنی غرض کی خاطر ان مزدوروں کو دیہاڑی پر لگاتے ہیں کیا ہم ان کے ساتھ انصاف برتتے ہیں؟
سارا دن مزدور کسی گدھے کا موافق اگر ہمارے کام میں جتا رہے اور شام کے وقت جاتے سمے جب وہ پیسے مانگنے ہمارے پاس آئے اور ہم کہہ دیں کہ بھئی آج تو سارے پیسے ماربل ٹائل سیمنٹ وغیرہ وغیرہ لانے میں خرچ ہو گئے تم یوں کرو کل لے لینا اب ایسے میں سوچا جائے تو ایک تو ہم اس مزدور کے ساتھ دغا بازی کر رہے ہیں دوسرا ہم غریب ماں اور چھوٹے چھوٹے غریب بچوں کی آہیں لے رہے ہیں کیو نکہ یہی مزدوری جو ہم آپ نے کل پہ رکھ چھوڑی اسی مزدوری سے ان بچوں اور اس ماں کا پیٹ بھرنا تھا اور تیسرا ہم اپنے نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی حکم عدولی کر رہے ہیں اللہ کے نبی کا فرمان ہے
ترجمہ۔

(جاری ہے)


مزدور کی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دیا کرو۔
یعنی کہ جب وہ آپکا کام اپنے مقررہ وقت پر ختم کر کے اپنے گھر کی راہ ناپنے لگے تب اسکے کہنے سے پہلے اسکا طے کردہ مزدوری اسکے ہاتھ تھما دی جائے لیکن ہم تو ٹھہرے ازل سے رفیق شیطان۔
''بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی''
جہاں ایک طرف جاب ہولڈر طبقہ کورونا کے پیش نظر گھر بیٹھے آرام سے اپنی منتھلی انکم وصول کر رہا ہے وہیں دوسری جانب مزدور طبقہ لاک ڈاؤں کے باعث دیہاڑی نہ ملنے کے کارن فاقوں کے دن کاٹ رہا ہے یہ سفید پوش طبقہ اگر بھوک سے مر بھی جائے گا تو بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے گا۔


کیونکہ انھوں نے اپنا مائنڈ اس بات پر سیٹ کر رکھا ہوتا ہے چاہے روکھی ملی چاہے سوکھی ملی لیکن اپنے ہی چولھے کی ملی تو من و سلوی ہے
جیسا کہ الحمداللہ رمضان المبارک اپنے اختتام کی منزل کو ناپ رہا ہے عید الفطر ہماری دہلیز پر آنے کو کوشاں ہے ایسے میں صرف اپنا ہی نہیں بلکہ ان سفید پوش لوگوں کا بھی خیال رکھیں یہ نہ صرف انسانیت کے ناطے ہمارا فرض ہے بلکہ ہمارے رب کا حکم ہے آپ چاہیں عبادت و ازکار کے ڈھیر لگا لیں لیکن اگر آپکا غریب پڑوسی بھوکے پیٹ سو گیا تو یوں سمجھ لیں آپ کی تمام تر عبادت ضائع ہو گئی اور اس غریب کی غریبیت کا سوال بھی آپ سے ہی ہو گا کہ تم تو صاحب استطاعت تھے تم نے کیوں نا اس کی مدد کی کیوں کہ
''خدا حقوق اللہ تو معاف کر دے گا لیکن حقوق العباد کسی صورت نہیں''

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :