بھارت کا اپنا،کشمیر کا اپنا یومِ جمہوریہ…!

ہفتہ 4 جنوری 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

صریر خالد ایک نوجوان قلمکار اور معروف کالم نویس ہیں۔اپنی منفرِد طرزِ تحریر اور بے باک تجزیہ نگاری کے لئے جانے جانے والے جناب صریر خالد سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں اور اُنہیں بڑی دلچسپی اور سنجیدگی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔(اُردو پوائنٹ)
ایک ایسے وقت پر کہ جب بی جے پی کے امیدوار برائے وزارت عظمیٰ نریندر مودی نے جموں و کشمیر میں نافذ آئین ہند کی دفعہ370پر بحث کی ضرورت اجاگر کرتے ہوئے ایک بڑے تنازعہ کو جنم دیا ہوا ہے،جموں و کشمیر میں ریاست کے الگ یومِ جمہوریہ منائے جانے کا مطالبہ ہونے لگا ہے۔ریاست کے ایک سابق بیوروکریٹ نے عدالت میں مفادِ عامہ کی ایک عرضی دائر کرکے ریاستی آئین کا دن منائے جانے اور ریاستی پرچم کے احترام کے لئے ہدایات طلب کی ہیں۔

(جاری ہے)

حالانکہ اس معاملے کو لیکر عدالت کا موقف ابھی سامنے نہیں آیا ہے تاہم یہ مسئلہ اگلے دنوں کسی بڑے تنازعے کو نہ سہی ایک لمبی سیاسی بحث کو ضرور جنم دے سکتا ہے۔
سیاسی غیر یقینیت ،علیٰحدگی پسند سیاست اور اس سب سے جنمے دیگر ”منفرد“مسائل کے لئے خبروں میں رہنے والی ریاست جموں و کشمیر کے لئے الگ یوم جمہوریہ منائے جانے کے مطالبے سے متعلق خبر تازہ ہے۔یہ مسئلہ گذشتہ دنوں ایک حیران کن خبر کی شکل میں تب مقامی و غیر مقامی میڈیا کی سرخیوں میں جگہ پا گیا کہ جب ریاست کے ایک سابق بیوروکریٹ کی جانب سے اس مطالبے کو لیکر ریاستی ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کرنے کا انکشاف ہوا۔جموں و کشمیر کیڈر کے ایک ریٹائرڈ (آئی ایف ایس )افسرنے یومِ جمہوریہ کی طرز پر جموں و کشمیر کے آئین کا دن منائے جانے اور سرکاری عمارتوں پر ریاستی پرچم لہرائے رکھنے کے مطالبے میں ریاستی ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کردی ہے۔محکمہ جنگلات کے سابق چیف کنزرویٹر عبدالقیوم خان نے ریاست کے سرکردہ وکیل ظفر شاہ کے ذرئعے ریاستی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کر کے عدلیہ سے ریاستی سرکار کے لئے یہ ہدایت طلب کی ہے کہ ریاستی آئین کے احترام میں یومِ جمہوریہ کی طرح ایک سالانہ دن منایا جائے اور ساتھ ہی سبھی سرکاری گاڑیوں اور دفاتر پر ریاستی پرچم لہرائے رکھنے کی ہدایت جاری کی جائے۔یاد رہے کہ جموں و کشمیر ریاست کا اپنا آئین،جسے17نومبر1956کواسمبلی نے منظور کیا ہے، اور پرچم ہے۔ریاست کا یہ آئین اسے اسمبلی سے منظوری ملنے کے بعد 26جنوری 1957کو نافذ ہوا تھا۔
ترنگے کے برعکس جموں و کشمیر کا پرچم یکرنگی ہے ۔لال پرچم کے بیچ میں سفید رنگ کا ہل والا نشان بنا ہے جبکہ جھنڈے کے داہنے حصے پر یکسان لمبائی و چوڑائی والی تین سفید عمودی لکیریں ہیں جو ریاست کے تین خطوں،جموں کشمیر و لداخ،کی نمائندگی کرتی ہیں۔ گو ریاست کے سکریٹریٹ کے علاوہ وزراء کی گاڑیوں پر ترنگے کے علاوہ ریاستی پرچم موجود رہتا ہے تاہم ریاستی آئین کا دن منائے جانے کا ریاست میں کوئی رواج نہیں ہے اور نہ ہی عام لوگوں کی ریاستی پرچم کے ساتھ بہت زیادہ شناسائی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عبد القیوم خان نے سینئر قانون دان ایڈوکیٹ ظفر شاہ کے ذریعے دائر کرائی گئی عرضی میں عدالت عالیہ سے اپیل کی ہے کہ وہ ریاست کے تمام جمہوری اور آئینی اداروں کو اس بات کا پابند بنائے کہ جموں و کشمیر میں بھی ہر سال ریاست کا اپنا آئین ہونے کے ناطے ریاستی سطح پر یوم جمہوریہ منایا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ عرض دہندہ نے اپنی عرضی میں عدالت عالیہ سے اس بات کیلئے بھی وجوع کیا ہے کہ تمام آئینی اداروں کے سربراہان کو یہ حکم صادر کیا جائے کہ وہ اپنی سرکاری گاڑیوں ،دفاتر اور دفتری عمارات پر ریاستی جھنڈا آویزان رکھا کریں۔ذرائع کے مطابق ایڈوکیٹ شاہ نے جموں و کشمیر پروینشن آف انسلٹ ٹو اسٹیٹ آنرس ایکٹ 1979کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی حکام کی طرف سے ریاستی جھنڈے کو اپنی گاڑیوں ،دفاتر اور دفتری عمارات پر آویزان نہ رکھنا ریاستی آئین و پرچم کی توہین کے مترادف ہے ،اس لئے تمام ریاستی حکام کے نام یہ ہدایت جاری کی جائے کہ وہ اپنی سرکاری گاڑیوں ،دفتروں اور دفتری عمارات پر ہمہ وقت ریاستی جھنڈا آویزان رکھا کریں۔ظفر شاہ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ سرکاری سطح پرترنگے کے بغیر کوئی بھی جھنڈا استعمال نہیں کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں سرکاری افسران دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ریاستی آئین اور ریاستی جھنڈے کی توہین کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔انہوں نے اپنی عرضی میں مزید کہا ہے کہ ریاستی سطح پر ایسی صورتحا ل پر روک لگانے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کہ جموں و کشمیر کے آئین اور ریاست کے ہل والے جھنڈے کی قدر و منزلت برقرار رہے۔عرضی میں کہا گیاہے کہ ریاست جموں و کشمیرواحد ایسی ریاست ہے جس کا اپنا آئین ہے ،اس لئے ریاستی جھنڈے کے احترام کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ریاستی سطح پر اسی طرح یوم جمہوریہ منایا جانا چاہئے،جس طرح ملکی سطح پر 26جنوری کو منایا جاتا ہے۔
عرضی دہندہ کا کہنا ہے کہ وہ سرکار سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ 26جنوری کو ریاست میں ہندوستان کا یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے یا پھر جموں و کشمیر کا اپنا۔اپنی عرضی میں بھی انہوں نے یہ بحث کی ہے کہ چونکہ جموں و کشمیر ایک ”نیم خود مختار“ریاست ہے لہٰذا انکی عرضی کا ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ ریاستی سرکار کی جانب سے ریاستی پرچم کے تئیں واجب احترام کا ظہار کرایا جائے۔کسی بڑے تنازعے کو جنم دینے کی صلاحیت والی انکی عرضی کے بارے میں پوچھے جانے پر وہ کہتے ہیں”پورے ہندوستان میں آئین ہند لاگو ہے جبکہ ہمارے یہاں کچھ آئین ہند اور کچھ ہمارا(جموں و کشمیر کا)آئین نافذ ہے،یہ ہماری ریاست کو ایک امتیاز حاصل ہے جس کا بھر پوراحترام و اظہارہونا چاہیئے“۔انکا کہنا ہے کہ اگر سرکار کی جانب سے انہیں یہ جواب ملتا ہے کہ 26جمہوریہ کو ریاست اور ملک کا مشترکہ یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے تو پھر ترنگے کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کے پرچم کو بھی لہرایا جانا چاہیئے۔انہیں شکوہ ہے کہ 17نومبر کو،جب ریاست کا اپنا آئین منظور ہوا تھا،نہ کوئی سرکاری تقریب منعقد ہوتی ہے اور نہ ہی 26جنوری کے دن ہی ترنگے کے ساتھ ساتھ ریاستی پرچم کے تئیں کوئی احترام دکھایا جاتا ہے۔عرضی گذار نے عدالت سے کہا ہے کہ ریاستی آئین کی شق ہائے متعلقہ کے تحت حکام کو ہدایت دی جائے کہ 17نومبر کو، جب کہ ریاست کا آئین منظور ہوا ہے ،یا پھر 26جنوری کو ،جبکہ یہ آئین نافذ ہوا ہے،یوم جمہوریہٴ جموں و کشمیر منایا جاتا رہے اور اس دن ریاستی پرچم کو لہرا نے کے علاوہ اسے ہمہ وقت اہم سرکاری تنصیبات اور اہم شخصیات کی سرکاری گاڑیوں پر بھی آویزاں رکھا جائے۔
جموں و کشمیر جیسی ریاست میں ،جہاں پہلے ہی علیٰحدگی پسندی کی ایک خونین تحریک اب دہائیوں سے جاری ہے،اپنی نوعیت کی یہ حساس عرضی عدالت نے شنوائی کے لئے ایک ایسے وقت پر منظور کر لی ہے کہ جب بی جے پی کے امیدوار برائے وزارت عظمیٰ نریندر مودی نے آئین ہند کی دفعہ370کے تحت جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت پر تنازعہ کھڑا کیا ہوا ہے۔یکم دسمبر کو جموں میں” للکار“نام کے ایک بڑے جلسہ سے خطاب کے دوران مودی نے اس دفعہ پر سوال اٹھاتے ہوئے اس پر بحث کئے جانے کی ”ضرورت“اجاگر کرتے ہوئے بی جے پی کے اس پالیسی پر قائم ہونے کا اشارہ دیا تھا کہ جسکے تحت پارٹی اس دفعہ کو ختم کرنے کا برسوں سے خواب دیکھ رہی ہے۔مودی نے آئین کی اس دفعہ کو ریاست کے کئی مسائل کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کو لیکر بحث کی جانی چاہیئے اور یہ دفعہ ختم کر دینی چاہیئے۔چناچہ انکی اس بات کو لیکر جموں و کشمیر ،با الخصوص وادی،میں زبردست رد عمل پیش آیا اور مودی کو ہوش کے ناخن لینے کی صلاح دی گئی۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے مودی کو دفعہ370پر کہیں پر بھی بحث کے لئے تیار ہونے کا چلینج دیتے ہوئے کہا کہ وہ(مودی)عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کو آئینِ ہند کی دفعہ 370کے تحت حاصل خصوصی حیثیت پر باتیں کرنے والے اس بارے میں کچھ جاننے کے بغیر ہی بول رہے ہیں ۔عمر عبداللہ نے کہا ” جو لوگ دفعہ 370کے بارے میں کچھ جانے بغیر اس پر بول رہے ہیں انہیں جان لینا چاہیئے کہ یہ دفعہ ریاست اور ملک کے باہمی رشتے کی کڑی ہے اور اسی کی وجہ سے جموں و کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ رشتہ بنا ہوا ہے“۔گو علیٰحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ انہیں370یا اس جیسے مسئلے کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ وہ ریاست کی ”مکمل آزادی“کے لئے بر سر جدوجہد ہیں لیکن عمر عبداللہ اور انکی طرح دیگر سیاستدانوں نے ہی نہیں بلکہ بعض منجھے ہوئے ماہرین قانون نے بھی نریندر مودی کی باتوں کو بچگانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دفعہ370کے خاتمہ کا وسیع معنووٴں میں مطلب جموں و کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کو ختم کرنا ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 27اکتوبر1947کو جب اُس وقت کے گورنر جنرل آف انڈیا لارڈ مونٹ بیٹن نے ریاست کے انڈین یونین کے ساتھ الحاق سے متعلق جس دستاویز کو منظور کیاہے وہ دستاویز الحاق مشروط تھا کیونکہ اس کے تحت جموں وکشمیر نے صرف چارحساس معاملات یعنی امور خارجہ ،دفاع، کرنسی اور مواصلات کے معاملے پر ہندوستان کے ساتھ الحاق ہوا ہے۔ سینٹرل یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں تعینات سرکردہ ماہر قانون پروفیسر شیخ شوکت حسین کہتے ہیں کہ دفعہ370ایک ایسا دروازہ ہے جس کے ذریعے جموں و کشمیر کا یونین آف انڈیا کے ساتھ الحاق ہوا ہے ۔وہ خبردارکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر یہ دروازہ بند کیا جاتا ہے توالحاق پرخود بخودسوال کھڑا ہو جائے گا ۔پروفیسر شوکت حسین کا مزیدکہنا ہے کہ اگر دفعہ370میں ترمیم کی ضرورت ہے تو اس کیلئے ریاست میں ایک مرتبہ پھر آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لانا ہو گا اور اگر ایسا ہوتا ہے توریاست میں لاگو مرکزی قوانین کا العدم ہو جائیں گے ۔ریاستی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ریٹائرڈ جسٹس بشیر احمد خان کا بھی کہنا ہے کہ دفعہ370کو ختم کرنے کا مطلب الحاق کو کمزور کرنا ہو گا ۔ہندوستان کے ایک سرکردہ آئینی ماہر راجیو دھون نے خبردار کیا ہے کہ دفعہ370کو منسوخ کرنے کا مطلب جموں و کشمیر کے انڈین یونین کے ساتھ الحاق کو ختم کرنے کے مترادف ہوگا۔حالانکہ عمر عبداللہ نے مودی پر کچھ جانے بغیر بولنے کا طعنہ کس تو لیا ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہے کہ وزیر اعظم بننے چلے مودی کو واقعی اس دفعہ کی وہ اہمیت و ضرورت کی علمیت نہ ہو کہ جسکا مذکورہ بالا ماہرین آئین و قانون انہیں سبق پڑھانا چاہتے ہیں۔نریندر مودی اور انکی طرح بے وقت کی راگنی گانے والے سبھی حلقے تاہم انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی دفعہ370کے نام پر ووٹروں کو جذباتی کرکے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔
البتہ جب ہندوستان میں رہتے ہوئے بھی جموں و کشمیر کو ”خصوصی حیثیت“فراہم کرنے والی دفعہ370پر جاری تنازعے کے دوران ہی اب ریاست کے لئے الگ یوم جمہوریہ منائے جانے کے مطالبات عدالت تک پہنچ جائیں تو معاملات کی حساسیت بڑھ جاتی ہے۔جیسا کہ اس معاملے پر ریاست کی حکمران اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے اس مبہم رد عمل سے بھی ظاہر ہے کہ جس پر ”صاف چُھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں“کا محاورہ صادق آتا ہے۔چناچہ جموں و کشمیر میں 1953سے پہلے جیسا نظام حکومت،جب ریاست کا اپنا صدر اور وزیر اعظم ہوا کرتا رہا ہے،بحال کروانے کے لئے ”مصروفِ عمل“ہونے کی دعویدار حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر ڈاکٹر محبوب بیگ نے عدالت میں دائر کردہ عرضی کے بارے میں کہا ہے” اس اقدام سے ایک نیا مسئلہ پیدا ہو جائے گااور ریاست و مرکز کے درمیان ایک نئی مخاصمت پیدا ہو گی“۔وہ کہتے ہیں کہ ایسی کسی بھی طرح کی مخاصمت سے احتراض کیاجانا چاہئے“۔تاہم انکا ساتھ ہی کہنا ہے” کشمیری اپنی علیحدہ شناخت اور پہچان کے بارے میں کافی حساس ہیں اور ریاست کو اپنے آئین کی رو سے حاصل انفرادیت کوقائم رکھا جاناچاہئے“۔حزب اختلاف ،سابق مرکزی وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی پی ڈی پی،کے ترجمان نعیم اختر زیر بحث عرضی کو کئی اعتبار سے دلچسپی کا باعث بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس عرضی سے”مسئلہ کشمیر پر بحث کے کچھ نئے پہلو سامنے آئے ہیں“۔وہ کہتے ہیں” اس معاملے پر گہرائی کے ساتھ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اور اس معاملے میں ریاستی عوام کے جذبات کے ساتھ ساتھ حکومت ہند کا نکتہ نظر بھی سامنے رکھنا ہوگاتاہم پی ڈی پی اس عرضی کی عدالتی کارروائی کو دلچسپی سے دیکھے گی“۔
حالانکہ علیٰحدگی پسندوں نے، توقعات کے عین مطابق،اس بحث میں پڑنے کی کوشش نہیں کی ہے اگرچہ وہ بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔ہاں البتہ خواتین تنظیم دخترانِ ملت ایسی واحد علیٰحدگی پسند تنظیم ہے کہ جس نے اس معاملے پر نہ صرف لب کُشائی کی ہے بلکہ تنظیم کی صدر سیدہ آسیہ اندرابی نے عدالت میں پیش کی گئی اس عرضی کو مفاد عامہ کے بر عکس مفاد نیشنل کانفرنس والی عرضی قرار دیا اور اسکی مکالفت کی۔ایک بیان میں انہوں نے 17نومبر کو خوشیاں منایا اس لئے احمقانہ ہوگا کہ اس دن،بقول اُنکے،”جموں وکشمیر پر ہندوستان کے قبضہ کو ریاستی آئین کے پردے تلے سند جواز عطا کرنے کی مذموم کوشش کی گئی تھی“۔بیان میں مزید کہا گیا ہے” 1956 میں 17نومبر کو پاس کئے گئے اس آئین کی شق 5اور شق3واضح طور پر تحریر کرتی ہے کہ جموں وکشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس پر ریاست کی اسمبلی بحث کرنے کا بھی اختیار نہیں رکھی ۔محترمہ کا کہنا تھا اس طرح سے یہ آئین ہندوستان کے قبضہ کو سند جواز کرتا ہے اس لئے اس دن کو منانا قطعی طور سے ایک غیرت مند قوم کو زیبا نہیں دیتا“۔
عدالت کا اس عرضی کو لیکر کیا فرمان ہوگا،اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن اتنا طے ہے کہ عدالت اس عرضی کو پہلی جست میں خارج بھی نہیں کرے گی۔جیسا کہ ماہرین آئین و قانون کا کہنا ہے یہ معاملہ ہر طرح سے پُر پیچ ہے اور عدالت کا فیصلہ جس سمت بھی آئے گا اس سے کسی بڑے تنازعے کو نہ سہی ایک لمبی بحث کو بنیاد ضرور مل سکتی ہے۔اگر عدالت عرضی گذار کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے اور اگر فیصلہ اسکے برعکس ہوتا ہے تو پھر ریاست کی اٹانومی کو یہاں کی سیاسی غیر یقینیت کے علاج اور اسے ”آزادی“سے بہتر حل بتانے والوں کے سامنے یہ سوال کھڑا ہوگا کہ اگر ریاستی پرچم کو الگ سے کوئی عزت دینا ممکن نہیں ہے تو پھر اس پرچم و آئین کا مطلب کیا ہے۔یہ معاملہ تو اب کسی بھی سمت تب ہی آگے بڑھے گا کہ جب اس بارے میں عدالت کا مطلوبہ فرمان جاری ہوگا لیکن اس سے ایک بار پھر یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ ”اُم المسائل“مسئلہ کشمیر کو حل کئے جانے تک ارضِ کشمیر پر کئی گتھیاں بنتی جائیں گی اور سلجھنے کی بجائے اُلجھتی ہی جائیں گی…!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :