اطہر شاہ خان جیدی اور میڈیا کی جادونگری

جمعہ 15 مئی 2020

Sarwar Hussain

سرور حسین

الیکٹرانک میڈیا کی زندگی نگاہوں سے حقیقت کو محو کر دینے والی جادو نگری ہے۔اس کی چکا چوند میں باہر کے رنگ بہت پھیکے اور بے اثر لگتے ہیں۔یہاں ذہنوں کو منجمند اور نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی سحرانگیزی ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری کر دیتی ہے۔یہ فکر و خیال میں سرایت کر جانے والے نشے اور سرور کی ایسی لت ہے کہ جو ہواوٴں میں اڑتاہوا دکھانے لگتی ہے جس میں باہر کی دنیا رینگتی اور گھسٹتی نظر آتی ہے۔

یہ شہرت کی چاٹ لگا کر ہر چیزکو تب تک بے مزہ کئے رکھتی ہے جب تک خود وقت کی چوٹ نہیں لگ جاتی ۔یہ پہچان کی خود فریبی میں ایسا مبتلا کر دیتی ہے کہ انسان کو اپنا آپ بھی یاد نہیں رہتا۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم ہمیشہ اس کی ضرورت نہیں رہیں گے آنکھیں بندکئے رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

جیسے ہی اس فریب نگری کا پردہ گرتا ہے تمام تر خود فریبی آئینے دکھانے لگتی ہے۔

کیسے کیسے ناگزیر لوگوں کو اس نے اپنے دام فریب میں تب تک رکھا جب تک ان کی ضرورت قائم رہی۔جیسے ہی نئی فریب خوردہ پود اس میں داخل ہوئی پہلے سے موجود طرم خاں ردی زدہ ہوگئے۔اس تعلق کاآغاز بھی ضرورت سے ہوتا ہے اور اختتام بھی۔حالات سے بے خبر رہنے کی روایت اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک قریب المرگ ہونے کا یقین نہ ہوجائے اسی لئے بیشتر کی ڈاکومنٹری ان کی بیماری کی اطلاع ملتے ہی بنا لی جاتی ہے تا کہ خبریت اور اولیت میں دوسروں سے آگے نکلا جا سکے۔

بہت خوش قسمت ہیں وہ جو اس انڈسٹری سے وابستہ رہتے ہوئے بھی حقیقی دنیا میں قدم جماکر اس کی فریب کاریوں سے خود کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سکول کے زمانے میں ایک کردار پی ٹی وی پر گول عینک لگائے جب بھی نمودار ہوتا چہروں پر ایک مسکراہٹ تیر جاتی۔اس کے شستہ جملے اور منفرد انداز دلوں میں گھر کر جاتا تھا۔

بچپن میں ہم اس سے جیدی کے نام سے متعارف ہوئے۔ان کے ایک انٹرویو میں ایک بار سنا تھا کہ وہ اپنے ڈرامے کے کردار کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہے تھے کہ رستے میں بائک خراب ہونے پر سب لوگ کردار کی طرف متوجہ ہو گئے۔اس اداکار نے بتایا بھی کہ میرے ساتھ اس ڈرامے کے لکھاری موجود ہیں لیکن لوگو ں نے پھر بھی کوئی توجہ نہ دی تو اسی واقعے نے انہیں اداکاری کی طر ف مائل کیا اور جیدی کا لازوال کردار تخلیق ہوا۔

وقت گزرتا گیا بچپن سے لڑکپن، نوجوانی ،جوانی اور اب بڑھاپے پہ دہلیز پرتیزی سے قدم بڑھاتی زندگی نے کتنے ہی رنگ دیکھے لیکن یہ کردار ذہن کے ایک گوشے میں متمکن رہا۔حیرت کی بات ہے چند ماہ پہلے سوشل میڈیا پرمیں نے ان کی ایک مزاحیہ غزل سنی، کھڑے کھڑے مسکرا رہا ہوں تو میری مرضی، لطیفہ خود کو سنا رہا ہوں تو میری مرضی۔ غزل کے تمام اشعار سنے تو خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی کہ نہ کوئی اخلاق سے گرا ہوا لفظ،نہ کوئی بیہودہ مبہم اشارہ، نہ کوئی ہلکا مضمون۔

ورنہ آج کل چند ایک کے سوا طنز و مزاح کی شاعری کے نام پر جو طوفان بدتمیزی برپاہے اس سے تو اللہ کی پناہ۔ بس پھر کیاتھا ذہن کی بند کھڑکی جیسے ایک خوشبو دار جھونکے سے کھل گئی ،یادوں کے دریچوں میں وہی ہنستی مسکراتی تصویر جھلملانے لگی۔ میں نے قلم نکالا اور کالم لکھنا شروع کیا کہ جیدی صاحب کہاں ہیں؟ لیکن بوجوہ مکمل نہ کر سکا اور پھر ان کے دار فانی سے کوچ کر جانے کی خبر بجلی بن کر گری کہ ادیب ، فن کار ، شاعر اطہر شاہ خان عرف جیدی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔

یہ طویل علالت کب سے تھی، کس نوعیت کی تھی اور کس اذیت سے دوچار رہے کبھی میڈیا سے سننے کا موقع نہیں ملا۔میں سوچنے لگاہم کتنے محبت کش لوگ ہیں۔ہماری محبت بھی دراصل ایک گھمبیر المیہ ہے کہ ہم دراصل شخصیات سے نہیں بلکہ ان سے جڑی ہوئی اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین سے محبت کرتے ہیں اور جب تک ہمارے اس جذبے کی مہمیز ہوتی رہتی ہے وہ شخصیت بھی ہمارے دائرہء محبت میں شامل رہتی ہے لیکن جیسے ہی اس سے منسلک ہماری اس خواہش کی تکمیل رکتی ہے محبت کا عمل بھی تھم جاتا ہے اورہم اس کے بعدواپس مڑ کر بھی نہیں دیکھتے اور اگر کہا جائے تو ہم انفرادی طور پر میڈیا مزاج لوگ ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔

یہی زندگی کی سچائی ہے ۔ایک اور بہت باکمال شخصیت ضیاء محی الدین بھی ان دنوں منظر سے غائب ہیں جنہیں اپنے شعبے کا لیجنڈ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔الفاظ کے زیر وبم، حسن ادائیگی اورلہجے کی کھنک کے ساتھ لفظوں سے کھیلنے کا جو ملکہ انہیں حاصل ہے اس کی کوئی اور مثال دور دور تک دکھائی نہیں دیتی ۔ جب بھی اچھی اردو سننے کو دل چاہے تو ان کی پڑھی ہوئی کوئی نہ کوئی نظم یا نثر سن لیتا ہوں تو طبیعت سرشار ہو جاتی ہے۔اللہ کرے کہ وہ بھی خیریت سے ہوں۔آخر میں جیدی صاحب کی مغفرت کی دعا کے ساتھ ان کا زبان زد عام شعر جو مزاح لکھنے والوں کو ہمیشہ آئینہ دکھاتا رہے گا۔
ہم نے پھولوں کی آرزو کی تھی    
آنکھ میں موتیا اتر آیا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :