یقین،محبت، اطمینان اور پروفیسر احمد رفیق اختر

بدھ 24 نومبر 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

انسان اور خدا کے تعلق میں تین بنیادی پڑاؤ ہیں جن سے کامیابی سے گزرنے والے ہی  عرفان  و آگہی کی منزلوں  تک رسائی حاصل کرتے ہیں جس میں سب سے پہلا درجہ یقین کا ہے۔ عمومی طور پر ہماری زندگی شک کے دائروں میں ہی سفر کرتی رہتی ہے اورزندگی کے  دیگر معاملات کی طرح ذات خدا  پربھی ہمارا یقین  قدم قدم پر متزلزل  ہوتارہتا ہے اور بعض اوقات ہم وجود خدا کے حوالے سے نفسانی وسوسوں کا شکار ہو کر  شبہات میں بھی پڑجاتے ہیں۔

انسان کا سفر یقین سے شروع ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے۔ خیالات کی شکست و ریخت کا عمل ہمارے فکری نظام میں توہمات کے تانے بانے بنتا رہتا ہے ۔صوفیا کے پاس سب سے بڑی دولت یقین کی ہی ہوتی ہے۔سورہ بقرہ میں ارشاد خدا وندی ہے کہ "یہ و ہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں" اور وہی کتاب فرماتی ہے کہ خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

(جاری ہے)

اہل اللہ اسی یقین کامل کے ساتھ سفر کا آغاز کرتے ہیں۔

اگلا مرحلہ محبت کا ہے۔ کتاب زندہ فرماتی ہے کہ"ایمان والے اللہ سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں" ۔دراصل ہم اللہ سے وہ محبت کرتے ہی نہیں جو وہ ہم سے چاہتا ہے۔ہماری ساری محبتیں دولت ،مال ،اولاد ،منصب کے گرد گھومتی ہیں اور ہم اللہ کو ان چیزوں میں اضافے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔جس دنیا کو قرآن متاع قلیل کہتا ہے ہم اس کی کثرت کی آرزوئیں لے کر ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔

ہماری محبتوں، آرزؤں اور تمناؤں کا مرکز یہی دنیا بن کر رہ جاتی ہے اور تعلق باللہ کا معاملہ ہماری دنیاوی محبتوں میں کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ تیسری اور اہم بات خوف ہے ڈر ہے جو ہمیں اپنی جان، اپنے مال اور اپنے دنیاوی مقام و مرتبے کے چھن جانے کا  ہوتاہے ۔ہم ان چیزوں میں سکون تلاش کرتے رہ جاتے  ہیں جبکہ قرآن نے خبردار کرتے ہوئے  کہا ہے کہ "دلوں کا اطمینان اللہ کی یاد میں ہے" ۔

پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب ان تینوں مراحل میں بندگان خدا کی وہی رہنمائی کر رہے ہیں جو قرآن حکیم ہمیں ہدایت فرماتا ہے۔ وہ خدا کی ذات اور اس  کے راستے پر یقین  کے ساتھ سفر  کرنے کا پیغام دے رہے ہیں، وہ زندگیوں میں ذات باری تعالیٰ کو ترجیح اول قرار دینے کی بات کرتے ہیں اور دلوں کے اطمینان کے لئے مخلوق خدا کو تسبیحات  ، اوراد و وظائف اور ذکر اذکار  بتاتے ہیں جو  دراصل  اسی حقیقی یاد سے متصل ہونے کا عمل خیر ہے جس پر وہ اپنے شاگردوں اور اہل محبت کو  گامزن کرنے کے لئے  پچھلے  کئی سالوں سے مصروف عمل ہیں۔

ان کی گفتگو سے صاف جھلکتا ہے کہ وہ  خدا کی ذات اور اس کے رستے پر سفر میں صاحب یقین ہیں،دنیاوی اور نفسانی محبتوں کی چکا چوندمیں  محبت خدا کے درجے پر فائز ہیں اوربے چینی و اضطراب  کی پھیلی ہوئی بیکرانی میں سکون و   اطمینان کی دولت سے مالا مال ہیں۔ تیقن کا کتنا وفور ہے ان کی گفتگو میں، محبت کی کیسی شبنمی ٹھنڈک ہے ان کے لہجے میں اور اطمینان کا کیسا اجالا ہے ان کے چہرے پر۔

کیسا یقین ہے اللہ کی ذات پر، کیسی محبت ہے اس مرکز محبت سے اور دل نگاہ کی کیسی طما نیت ہے ان کی باتوں میں ۔جی سی یونیورسٹی لاہور میں فیض عالمؒ کے عرس کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس میں پروفیسر صاحب کی گفتگو  کوبراہ راست سننا نہایت خوشگوار اور راحت افزاء لمحات تھے۔وہ صوفیاء کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہیں استاد کہہ کر پکارتے ہیں ۔سید ہجویرؒ کو بھی وہ اپنا  روحانی رہنما اور استاد کہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سید ہجویر ایسے استاد ہیں جو غلطی کو بھی علم کہتے ہیں۔وہ ایسے صاحب  اخلاص ہیں کہ یہ بات کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتے کہ " میں ایک پری چہرہ کا نادیدہ عاشق رہا"۔خود کو مقدس ثابت نہیں کرتے بلکہ اپنی ہر غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ۔کیفیات کو بیان کرنے میں دنیائے تصوف میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔ سووہ کہتےہیں کہ "راہ خدا میں سہارے ڈھونڈھنا ہی تو اس تک پہنچے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے"۔

پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ  خدا بندے سے اپنی ذات کے حوالے سے اخلاص چاہتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ مجھے جبر اور مشقت سے یاد نہ کرو بلکہ ایسے یاد کرو جیسے اپنے ماں باپ کو کرتے ہو۔ سا ئنس کے پاس خدا کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے جبکہ خدا کا ڈیٹا کتاب حکیم کی صورت میں موجود ہے۔ اگر انسان ایک ہزار مرتبہ بھی غلطی کرے تو وہ انسان ہی رہتا ہے جبکہ خدا ایک بھی غلطی کرے تو وہ خدا نہیں رہتا۔

انسان اس خالق کا سب سے بڑا ڈیزائن ہے۔اتنا بڑا شاہکار تخلیق کر کے وہ اس سے منہ کیسے پھیر سکتا ہے ۔ خدا بندوں سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا بلکہ انسان خود پیچھے ہٹتے ہیں۔ خدا کو کوئی مانتا ہے تو اس کا اپنا فائدہ ہے اور اگر نہیں مانتا تو اس کا اپنا نقصان ہے۔ آج کا ماڈرن انسان  اپنے جرائم کےقبولیت کی شرط پر خدا کو ماننا چاہتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ رسول کے ساتھ کسی کا مقابلہ کرنا ہی بہت بڑی جہالت کی نشانی ہے۔

ان کے علم کی وسعت کو جانا ہی نہیں جا سکتا تو پھرتقابل کیسا؟ ان کا کہنا تھا کہ اسلام میں کم سے کم زاد راہ شریعت ہے۔طریقت  ایک خیمہ ہے۔طریقت دراصل شریعت کی نیت ہے۔وہ کہہ رہے تھے  کہ میں حیران ہوں کہ ہم مغرب کی خباثتوں کے آگے اسلام کا سافٹ امیج پیش کرنے کی آخر کیوں کوشش کر رہے ہیں۔ہم تو سراسر ہیں ہی سوفٹ امیج۔ہمارا خدا، ہمارا پیغمبر اور اس  کی تعلیمات تو ہیں ہی سراسر خیر اور بھلائی کا سرچشمہ ۔

سوال و جواب کی نشست میں کسی نے اپنی بہت بڑی الجھن کا ذکر کیا کہ یہ کیسے پتا چلے گا کہ  میں صاحب اخلاص ہوں؟ انہوں نے کہا کہ میاں اخلاص ہی تو وہ واحد چیز ہے جس کا انسان کو خود پتا ہوتا ہے جس کا کسی سے  بھی پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں۔پروفیسر صاحب کی گفتگو کے دوران  یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ انہیں قرآنیات  پرزیادہ عبور حاصل ہے یا سیرت نگاری پر، انہیں قدیم علوم میں کمال حاصل ہے یا   جدید یات کے ماہر ہیں،انہیں تصوف  و طریقت  پر زیادہ عبور ہے یا جدیدسائنس و فلسفے پر۔

بلا شبہ وہ ایسے نابغۂ روزگار ہیں جن کے حوالے سے یہ بات فخر سے کہی جا سکتی ہے کہ ہم نے انہیں قریب سے دیکھا اوران کی براہ راست گفتگو سننے کے اعزاز سے  بہرہ مند ہوئے ۔میرے لئے اعزاز ہے کہ میں نے ان کے لئے کہی گئی نظم کے چند اشعار ان کے سامنے پیش کرنے کی سعادت بھی حاصل کی اور مکمل اشعار پر مشتمل فریم انہیں ہدیۂ محبت کی صورت نذر بھی کیا۔

  انہوں نے دوران گفتگو جب یہ انکشاف کیا کہ وہ بھی اولڈ راوین ہیں تومیں ورطۂ حیرت میں گم  ہو کر سوچنے لگا کہ کیا وجہ ہے کہ  وطن عزیز کی علمی، ادبی، شعری  ، انتظامی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات جنہوں نے اپنے اپنے فن میں کمال حاصل کیا ان  میں سےا کثر کا تعلق آخر اسی تعلیمی ادار ےسے ہی کیوں ہے؟ تو اچانک یہ بات میری فکر پہ القا ہوئی کہ کیوں نہ ہو کہ اس مادر  علمی کو فیض عالمؒ کے قدموں کی قربت  اور برکت کا اعزاز حاصل ہے ،اوریہ حقیقت ہے کہ  کسی صاحب اخلاص و ولایت سخی کے قدموں میں جگہ میسر آ جائے تو منزلیں اور نیک نامیوں کی بلندی  خود بخود  چل کر  جھولی میں آن گرتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :