"خدا اور محبوب خدا "کی تقریب رونمائی

بدھ 1 دسمبر 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

علمی تحقیق بہت دشوار گزار گھاٹی ہے جس پر صاحب ہمت و استقامت ہی قدم رکھ سکتے ہیں۔ مطالعے کے فقدان، محنت سے گریز اور شارٹ کٹ کے زمانے میں اب یہ عمل ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ خاص طور پہ جب کام دینی نوعیت کا ہو تو پھر یہ فہرست اور زیادہ کم ہو جاتی ہے۔ اصل ماخذات تک رسائی  خون جگر مانگتی ہے۔  سہل مزاجی  کے عمومی روئیے نے ہماری تحقیق نگاری کو زیادہ تر ڈیجیٹل فارمیٹ  کی نذر کر دیا ہے ۔

ایسے قحط الرجال میں کچھ  لوگ اب بھی خال خال موجود ہیں جو آج بھی محنت اور علمی دیانتداری کے علمبردار بن کر اس عہد کا جھومر بنے ہوئے ہیں۔حافظ محمد سعد اللہ صاحب کا شمار بھی ایسے ہی چند گنے چنے محققین میں ہوتا ہے  جو تحقیقی کام  کی اہمیت کو بھی جانتے ہیں، اسے سلیقے سے کرنے کے ہنر  سے بھی آشنا ہیں، اس کے لئے درکار علمی دیانت و متانت سے بھی بہرہ مند ہیں اور سب سے بڑھ کر آج کے زمانے میں بھی ان چند گنے چنے اہل علم میں سے ہیں جو اپنا کام خود کرنے  کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہیں۔

(جاری ہے)

ورنہ آج کل زیادہ تر مصنفین کے نام کا حال بھی سیاسی تختیوں جیسا ہوتا جا رہا ہے جس میں کام کوئی کرتا ہے اور نام کی تختی کسی کی لگتی ہے۔شیخ زید اسلامک سینٹر جامعہ پنجاب میں  ان کی  موضوع سیرت پر قومی سطح پر اول آنے والی کتاب "خدا اور محبوب خدا" کی تقریب رونمائی سوز و گداز کی کیفیات کے سائے میں منعقد ہوئی۔تلاوت کلام پاک قاری اویس اصغر اور ذکر رسول کی سعادت راقم الحروف کے حصے میں آئی۔

تقریب کے میزبان اور پروگرام کی میزبانی ڈاکٹر سعید احمد سعیدی نے بطریق احسن سر انجام دی۔ انہوں نے کہا کہ سیرت پر کام بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔ڈاکٹر حافظ محمد سجاد کلیدی خطبہ میں گویا ہوئے کہ  حافظ محمد سعد اللہ  تحقیق نگاری کے ماہر اور اپنے کام پر حد درجہ محنت کرنے والے انسان ہیں اور ایک بات میں بہت ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ ان کی موجودہ کتاب میں بہت سے ایسے موضوعات ہیں جو تحقیقی مقالہ جات کاموضوع بن سکتے ہیں۔

ان کی تحقیق کی خوبی اس کا غیر جانبدار ہونا ہے جو ایک محقق کے لیے نہائت ضروری امر ہے۔کسی سے علمی اختلاف بھی کیا ہے تو اس میں بھی متانت کا انداز اختیار کیا ہے۔ انہوں نے حدیث کی مستند کتابوں  اور ماخذات سے استفادہ کیا اور وہاں سے پھول چن چن کر کتاب میں جمع کئے ہیں۔خدا اور رسول کے نازک موضوع پر لکھنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔اس  کتاب کے نام کے لئے کوئی پندرہ نام تجویز کئے گئے۔

میں نے مشورہ دیا کہ اس کتاب میں جو خوشبو پھیلی ہے اس کے مطابق اس کا نام"خدا اور محبوب خدا" ہونا چاہیے۔کچھ سوچ بچار کے بعد کہنے لگے کہ حقیقی طور پر اس کا نام یہی بنتا تھا یعنی شروع میں بھی خدا ہے اور آخر میں بھی خدا اور درمیان میں محبوب۔ ڈاکٹر سید سلطان شاہ نے کہا کہ حافظ صاحب نے اس کتاب میں تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔یہ اپنے کام پر بہت محنت کرتے ہیں۔

معمولی سے معمولی  بات کی حقانیت کو جاننے کے لئے بہت سارے صاحبان علم سےتبادلہٴ خیال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں  کرتے ۔ان کا کمال یہ ہے کہ بنیادی ماخذات سے استفادہ کرنے کی بھرپور صلاحیت اور حوصلہ رکھتے ہیں۔کتابیات کی فہرست سے ان کی محنت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ا یک بالغ نظر محقق کی طرح تمام مکاتب فکر کے کام سے استفادہ کرتے ہوئے مسلکی تنگ نظری سے خود کو دور رکھا ہے۔

ان کی نثرخوبصورت  اور جازبیت کی حامل ہے ۔ حضورﷺ کے القابات کو نہایت خوبصورتی سے تحریر کیا ہے اور درود پاک کے صیغے بھی اہتمام سے لکھے ہیں۔تحریر کی زبان بہت سلیس اور رواں ہے۔جملوں سے والہانہ محبت کا رنگ جھلکتا ہے۔ابواب بندی کی ترتیب بہت  دلنشیں ہے ۔ ڈاکٹر طاہر حمید تنولی کا کہنا تھا کہ کتاب کے عنوان اور اس کے مندرجات میں ایک مضبوط ربط قائم ہےجس میں ان پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے جس کا تعلق معاشرے  کی اصلاح سے ہے۔

سیرت کے فہم کو عام کر کے معاشرے کی ناہمواری کو ختم کیا جا سکتا ہے جس کے لئے یہ کتاب بہت معاون ہو سکتی ہے۔اس کتاب کے مندرجات ہماری فکری ناہمواری کو ختم کرنے کا سبب بن سکتے ہیں جس کے مطالعے سے ہمارا فکری انتشار دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسے موضوعات پر لکھنے کے لیے جو درویشی، حوصلہ اور بے خوفی چاہئے وہ توفیق ایزدی سے انہیں عطا ہوئی ہے۔

ڈاکٹر طاہر رضا بخاری  محو کلام ہوئے کہ سیرت پر کام کرنے کے لئے طبیعت میں ایک خاص طرح کا گداز درکار ہوتا ہے جو انہیں عطا کیا گیا ہے۔ایسی تقریبات میں عموماً لوگ دلچسپی سے نہیں آتے لیکن آج یہاں حاضرین کی تعداد بتا رہی ہے کہ سیرت پر کام نے لوگوں  کے دلوں میں ان کے لئے محبوبیت پیدا کر دی ہے۔ حافظ صاحب کی طبیعت میں گداز اور نرمی سیرت پر کام کرنے کے سبب ہے ۔

حافظ صاحب کا کام سرکاری اعزازات  اور انعامات سے بہت بلند تر ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہر مصطفےٰ گویا ہوئے کہ دور حاضر میں جس نے پیکر عشق رسالت مآب کو دیکھنا ہو وہ حافظ سعد اللہ صاحب کو دیکھ لے۔ان کو دیکھ کر جذبہٴ محبت رسولﷺ کو حرارت ملتی ہے۔قرآن کریم کی ۱۰۳ آیات کا ذکر اس کتاب میں موضوع کی مناسبت سے موجود ہے جہاں حضور سے محبت کا ذکرملتا ہے۔

اس کتاب کا حسن یہ ہے کہ اس میں کہیں بھی شرک کا شائبہ موجود نہیں ۔میں ان سے اکثر پوچھتا ہوں کہ آپ کون سا ایسا عمل کرتے ہیں کہ  عشق رسول کی چمک ہے آپ کے چہرے پر۔ اللہ کریم ہمیں آپ کے محبت رسولؐ سے پرنور چہرے کو بہت دیر تک دیکھنا نصیب فرمائے۔آمین ۔ کتاب کے مولف جناب حافظ سعد اللہ نے کہا کہ کتاب کو قومی سطح پر اعزاز ملنے پہ خدا کا شکر ادا کر تا ہوں۔

تمام مقررین نے اپنی محبت کا اظہار کیا اورمجھ سے محبت کے سبب صرف میری خوبیوں کی بات کی ۔ ان سب احباب کی محبت میسر آ جا نا بھی میرے اللہ کا مجھ پر فضل ہے۔میرا نہ تو کوئی صاحب اسلوب نثر نگار ہوں، نہ میری ظاہری و باطنی طہارت اس معیار کی ہے کہ میں ایسے پاکیزہ موضوع پر قلم اٹھا سکوں۔لیکن یہ سب حضورﷺ کے نام اور ان کی سیرت کی برکات ہیں جو مجھے عطا ہوئی ہیں۔

میں کتاب پر محنت اور کام انعام یا ایوارڈ کے حصول کے لئے نہیں کرتا بلکہ یہ تو کام کرنے کے بعد مجھے بتایا گیا کہ اس کتاب کو قومی سیرت ایوارڈ کے لئے بھجواؤں۔میں گوشہ نشین آدمی ہوں۔میرا اس میں کوئی کمال نہیں ہے۔میں حضورﷺ کے حوالے سے جملہ لکھتے ہوئے یہ خیال  ضروررکھتا ہوں کہ کوئی بھی لفظ ، کوئی جملہ آپ کی شان اور مقام سے فروتر مجھ سے تحریر نہ ہو  جائے۔

میری تربیت میں میرے دینی مدرسہ جامعہ محمدی چنیوٹ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ میں مزدور باپ کا بیٹا ہوں۔میرے خاندان کا کوئی علمی، سیاسی  یا انتظامی بیک گراؤنڈ نہیں ہے۔اپنے خاندان میں پہلا حافظ قرآن تھا۔مجھ بے بساط سے کسی کا کوئی مفاد وابستہ نہیں لیکن اس کے باوجو د اس تقریب کا انعقاد ،اتنے صاحبا ن علم اور حاضرین کی تشریف آوری محض آپ کی علم دوستی کی  دلیل ہے ۔

دعا کے بعد تقریب اختتام پذیر ہوئی۔وزارت مذہبی امورجیسے قومی ادارے کو سیرت پر کام کرنے کے لئے مستقل محققین کی ضرورت ہے۔ قومی رحمة العالمینؐ اتھارٹی کا قیام  بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔وزیر اعظم  پاکستان نے ۱۲ ربیع الاول کو کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ایسے لوگوں کا انتخاب کر رہے ہیں جو ہمیں سیرت کے موضوعات پر ایسا کام کر کے دیں جس کے تراجم کروا کر ہم بین الاقوامی فورمز پر پیش کر سکیں۔

اس اتھارٹی کو چاہئے کہ محترم حافظ سعد اللہ صاحب جیسے گوشہ نشین محققین کی خدمات حاصل کر کے انہیں اس کام پر مامور کیا جائے جو یقیناً ایسے کام کرنے کی نہ صرف صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ ان کی قیادت میں محققین کی ایک جماعت  بھی تیار کی جا سکتی ہے۔اللہ کرے صاحبان اقتدار اس حوالے سے کوئی مربوط اور مضبوط پالیسی بنا کر اس عمل کو آگے بڑھا سکیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :