ایف ۔سی کالج۔۔۔کچھ یادیں

پیر 20 دسمبر 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

گزشتہ دنوں اپنے بیٹے کے ساتھ پیرنٹ ٹیچر میٹنگ کے سلسلے میں سالوں بعد ایف ۔سی کالج جانا ہوا تو جیسے یادوں کا ایک دبستان کھل گیا۔اس کالج کے در و دیوار سے آج بھی اسی اپنائیت کی خوشبو آتی ہے جو یہاں زمانۂ طالب علمی کے دوران آیا کرتی تھی ۔میٹرک کے بعد چار سالہ گریجوایشن تک کا عرصہ  اسی کالج کی ہرے بھرے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں گزرا ۔

اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور اور  ایف سی کالج دو ہی بڑے سرکاری تعلیمی ادارے سمجھے جاتے تھے اور طلباء کی اولین ترجیح یہی دو ادارے ہوتے تھے۔ جانے کیوںایف سی کالج گھر سے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ دل کے بھی قریب محسوس ہوتا تھا۔ یہاں کا میرٹ کافی زیادہ تھا لہٰذا نعت کی سیٹ پر داخلہ  ہوا جس کے لئے  کل ۱۱۴لڑکوں میں سے سلیکشن ہوئی ۔

(جاری ہے)

کسی سرکاری مقابلے میں اول آنے والے سرٹیفکیٹ  کا ایک نمبر تھا اور میرے پاس اس وقت تیس سے زائد مقابلہ جات میں اول آنے کے سرٹیفکیٹ موجود تھے  سو یہ مقابلہ تقریبا بلا مقابلہ ہی گنا گیا۔

کالج میں  پہلے دن فرسٹ ائیر کو سینئرز کی طرف سےڈرانے دھمکانے اور پیسے بٹورنے کی رسم اس وقت بھی موجود تھی جس کا میں بھی شکار ہوا  جسے یاد کر کے آج بھی لطف آتا ہے۔ اس کالج کے پسند ہونے کی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک  وجہ اس کے یونیفارم میں  کو ٹ کا گہرا نیلا رنگ جسے نیوی بلیو بھی کہتے ہیں شامل تھاجسے اس زمانے میں بھی بڑے شوق اور اہتمام سے سلوایا ۔

اس پر لگنے والے گولڈن بٹن دل کو بہت بھاتے تھے جو خاص اہتمام سے خود ڈھونڈھ کر درزی کو لا کر دئیے۔ فارغ پیریڈ میں ہرے بھرے گھاس پر بیٹھ کر احباب کو خطوط لکھنا  اور واپس جاتے ہوئے پوسٹ کرنا بھی معمول کی بات تھی۔زندگی  کی پہلی باقاعدہ شاعری اورزندگی کا پہلا کالم اسی کالج کے گراؤنڈ میں بیٹھ کر تحریر کیا تھا۔ پہلی باقاعدہ شاعری جو غزل کی صورت میں تھی اسی گراؤنڈ کی پویلین کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر لکھی تھی۔

پہلا باقاعدہ کالم جو نوائے وقت میں چھپا جس کا عنوان"پولیس کا پاکستان" تھا یہیں زمین پر بیٹھ کر لکھا تھا۔زندگی میں پہلی بار مشاعرہ اسی کالج میں سننے کو ملا ۔یہاں کی اسلامک سوسائٹی کا وائس پریذیڈنٹ بھی رہا۔گریجوایشن کے دوران  کالج کی نمائندگی کرتے ہوئے جس بھی کل پاکستان بین الکلیاتی مقابلہ جات میں شرکت کی ٹرافی لے کر ہی واپس لوٹے۔

انعامات لے کر پرنسپل صاحب کے کمرے میں  داخل ہوتے تو ان کا پرتپاک استقبال ایک عجیب طرح کی سرشار ی سے ہمکنار کر دیتا ۔معروف کمپیئر دلدار پرویز بھٹی جو یہاں انگریزی ادب کے استاد تھے  سے بھی پہلی ملاقات یہیں پرنسپل صاحب کے کمرے میں ہوئی جب  کل پاکستان کالجز  مقابلۂ نعت  جیت کر آیا جس  پر انہوں نے اپنے معروف پنجابی پروگرام "پنجند" میں بلا کر پہلا باقاعدہ انٹرویو کیا۔

قاری عبدالماجد نور تلاوت اور مجھے نعت کے لئے کالج کی طرف سے مقابلہ جات میں بھیجا جاتا اور الحمد للہ ہر مقابلے میں سرخرو ہو کر لوٹتے ۔ اسی کالج میں میری ملاقات معروف شاعر اور ادیب ڈاکٹر حسن رضوی مرحوم  سے ہوئی جن کو میں نے ان کی معروف نعت "نہ رئیس ہوں نہ امیر ہوں نہ میں بادشاہ نہ وزیر ہوں" سنائی جو ان سے تعارف اور محبت کا باقاعدہ حوالہ بن گئی ۔

انہوں  نے ہی مرحوم طارق عزیز کو فون کر کے اپنے پروگرام  "نیلام گھر"میں مجھے بلانے کو کہا۔ مرحوم ڈاکٹر اجمل نیازی بھی اردو ادب کے استاد تھے ان سے بھی گاہے بگاہے یہی  ملاقات ہوتی رہی اور یوں ادبی ذوق  بھی پروان چڑھتا رہا۔ممتاز شاعر عباس تابش صاحب سے اسی کالج میں اردو پڑھی۔جرنلزم توفیق بٹ صاحب، اسلامک سٹڈیز عبدالعزیز خان اور فیاض سعید صاحب،  انگریزی کے استاد کا نام تو یاد نہیں رہا ، وہ نابینا تھے اورکوئی طالب علم ریڈنگ کرتا تو وہ اس کی تشریح اتنے مزے سے کرتے لطف آجاتا۔

نذیر صاحب سیاسیات پڑھاتے تھے جن کا ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا۔کالج کے آڈیٹوریم  میں ہونے والی تقریبات میں شرکت اور نعت پیش کرنا معمول کی بات بن گئی جس کی بدولت پورے کالج  کے اساتذہ اور طلبا میں تعارف ہو تا چلا گیا۔ کرکٹ کا بھی  جنون کی حد تک شوق تھا اور وسیم اکرم کو پہلی بار اسی کالج  کی تقریب میں دیکھا ۔این سی سی کے بیس اضافی نمبروں کے لئے  ٹریننگ کورس بھی کیا جو بہت دلچسپ تجربہ تھا۔

صوبیدار صاحب نے نہ جانے کیوں پہلے ہی دن کمانڈر بنا دیا۔بیس لڑکوں کی اس ٹیم کو لیڈ کرنا بھی بہت مسحور کن لمحات تھے۔اسی ٹریننگ کے اختتام پر نشانہ بازی کا مظاہرہ ہوا جس میں کم وبیش دو سو شریک طالب علموں میں قریب ترین نشانہ لگانے میں اول آنا بھی حیران کن اور مسرت آمیز تھا۔اپنے ہم جماعتوں کے گروپ میں شرارتی اور جملہ باز  ہونے کا شہرہ تھا اس لئے کچھ تو پہلے ہی منت سماجت کر لیتے تھے کہ آج روئے سخن ہماری طرف نہ ہو تو عنایت ہو گی۔

کالج کی  چھوڑی سڑک دونوں اطراف سے ہرے بھرے گھنے درختوں سے ڈھکی رہتی تھی جس کو پہروں دیکھنا اور اس چھاؤں میں پیدل ویگن تک پہنچنا بہت رومان پرور محسوس ہوتا تھا۔کبھی کبھار کالج کے قریب ایک  مشہور نان چنے والے سے کھانا کھانے کے لئے پیسوں کا جمع ہو جانا  بھی مکمل عیاشی محسوس ہوتی تھی۔ ۔وقت کتنی تیزی سے گزرجاتا ہے ۔لمحات بیت جاتے ہیں لیکن ان میں کشید کی ہوئی مسرتیں ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں۔

اپنے بیٹے کے ساتھ ڈی بلاک کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے مجھے آج بھی ایسا ہی لگ رہا تھا کہ اپنی کلاس کے ختم ہو جانے کے بعد  باہر نکل رہا ہوں جہاں کلاس فیلوز پہلے سے منتظر ہونگےجن پر جاتے ہی تند و تیز جملوں کے تابڑ توڑ حملے کرنے ہیں۔ میں باہر نکل کر اسی بینچ پر آ کر کچھ دیر کے لئے بیٹھ گیا جہاں کبھی روز قہقہوں کی محفل سجتی  اور اردگرد کالج فیلوز کا حصار ہوتا۔

لیکن آج یہاں اطراف میں یاروں کا نہیں بلکہ  یادوں کا جمگھٹا   تھا ، کانوں میں قہقہوں کی نہیں بلکہ  گزرے ہوئے لمحوں کی گونج سنائٰی د ےرہی تھی، آنکھوں  میں سامنے کے نہیں بلکہ گزرے ہوئے وقت  کے  منظر رنگ بھر رہے تھے ۔کبھی احباب اسی بینچ سے اٹھنے نہیں دیتے تھے اور آج انہی کی  یادوں نے پاؤںمیں  زنجیر ڈال رکھی تھی۔ پہلے یار جانے نہیں دیتے تھے اور آج یادوں نے دامن تھام رکھا تھا۔ سالوں بعد اسی بنچ پر اکیلے  بیٹھے اسی سوچ  میں گم تھا کہ واقعی  تنہائی کی محفل سے اٹھنا کتنا مشکل کام ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :