جرم ٹھہری ہے پردہ داری بھی

منگل 15 فروری 2022

Sarwar Hussain

سرور حسین

بھارت کے شہر کرناٹک کے ایک تعلیمی ادارے میں مسکان نامی ایک بہادر اور جرات مند مسلمان بیٹی کے ہندو قوم پرستوں کے عین درمیان نعرہٴ تکبیر بلند کرنے کی گونج دنیا بھر میں سنی گئی۔قدرت کا نظام بھی عقل و فہم میں نہ آنے والی چیز ہے۔اس کو اپنی کبریائی کے اظہار کے لئے نہ تو کسی صاحب تخت و تاج کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کسی حکمران وقت کی اور  نہ ہی کسی قوی و طاقتور فوج ظفر موج کی ۔

وہ جب ،جہاں، جیسے اور جس سے چاہے اپنی شان کا جلوہ دکھا سکتا ہے۔وہ چھوٹی چھوٹی ابابیلوں سے دیو قامت ہاتھیوں  کو رزق خا ک کر دینے کی طاقت رکھتا ہے۔اس بیٹی کو بھی کیا خبرتھی کہ اس کے یہ جذبات سے معمور چند سیکنڈ  لوح وقت پر نقش ہو کر رہ جائیں گے ۔ایک کمزور نہتی لڑکی کی نعرہٴ تکبیر کی آواز کتنے زور آور وں کے منہ پر طمانچہ بن کر ثبت ہوجائے گی۔

(جاری ہے)

مسکان کی حیرت انگیز جراٴت نے سب سے پہلا نقاب ان لکھاریوں کے چہروں سے اتارا ہے جن کی سیاہی  مذہب کو پرائیویٹ معاملہ لکھ لکھ کر خشک  ہوئی جاتی ہے مگر اس معاملے پر خاموشی سے صاف ظاہر  ہوتاہے کہ "دیتے ہیں یہ دھوکہ بازی گر کھلا" ۔ دوسرا نقاب ذراذرا سی بات پر عورتوں کے حقوق کے ڈھول پیٹنے والی ان  عورتوں  کے منہ سے بھی اترا ہے  جن کی موم بتیاں ہیں کہ جلنے میں ہی نہیں آ رہیں  ۔

معلوم ہوا کہ ان کو عورت کا تقدس اور عصمت عزیز نہیں بلکہ یہ مغرب کے اسی  ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں  جس کا مقصد ہی عورت کو بے پردگی کے راستے پر لگانا ہے۔حقیقت میں حجاب کے خلاف عدالتی فیصلہ آنےکے پیچھے  وہ طاقتور مغربی قوتیں ہیں  جو ہر عورت کو جنس بازار بنانے پر تلا ہے۔حجاب کرنے والی عورت دنیا کی بہت بڑی سورس آف انکم میک اپ انڈسٹری پر ٹھوکر مار کر  بے لباسی کے  فروغ کے علمبردار مافیا کی جڑیں کھوکھلی کر نے کا باعث بنتی ہے جو انہیں کسی صورت قابل قبول نہیں  ۔

دراصل اب دنیا کی ترجیحات ، تعلقات  تہذیبی ومعاشرتی مماثلت سے نہیں بلکہ معاشی مفاد پرستی سے استوار ہو رہی ہیں۔اسی لئے تو بت خانوں کو ختم کرنےوالے عرب اب دنیا کے سب سے بڑے بت خانے تعمیر کرچکے ہیں ۔ نفس پرستی کی  خرافات کا  جڑ سے خاتمہ کرنے والی سر زمین حجاز کوبھی اب اسی لئے ہوس پرستی کی آکاس بیلوں نے جکڑ رکھا  ہے۔اسلام کا عورت کے لئے پردے کا حکم اسے   ایک طرف تو بد نظری اور ہوس پرست نظروں سے محفوظ رکھتا ہے اور دوسری طرف  اسکی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کا کام بھی کرتاہے۔

غریب اور متوسط گھرانوں کی بچیاں تعلیم اور کام کاج کے لئے گھر سے باہر نکلتے ہوئے روز نت نئے فیشن سے معمور جوڑے پہننے کی استطاعت نہیں رکھتیں  اور حجاب اس  پردہ داری کا سب سے موثر ذریعہ بھی ہے۔ فیملی اجتماعات اور خوشی کے موقع پر عورت کو زیب و زینت کرنے میں کوئی عار نہیں لیکن یہ کیا کہ وہ روز گھر سے اپنے کام کاج کے لئے نکلتے ہوئے ، اپنی تعلیم کے لئے جاتے ہوئے اپنے اور اپنے والدین کے رزق کا ایک معقول حصہ اس مغربی فیشن انڈسٹری کی آگ میں جھونکنے پر مجبور کر دی گئی ہے ۔

اسلام کا ایک حکم اور اس پہ عمل کرنے سے کتنی قباحتوں سے عورت محفوظ رہتی ہے اسے خود بھی اس کا پوری طرح ادراک نہیں ۔ لیکن کیا کریں  ہمارا الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، مغربی حکومتوں کے مفادات کے لئے کام کرنے والی این جی اوز، کاروباری ادارے ہر کوئی عورت کو سیلنگ پروڈکٹ بنانے پر تلا ہے۔بے حجابی کا ایک منہ زور طوفان ہے جس میں ہر کوئی بہے جا رہا ہے اور ایسے میں کوئی ایک موہوم سی آواز بھی ان کے لئے وبال جان بن جاتی ہے ۔

حیرت ہے کہ جب نیم عریاں لباس اور یہاں تک کے عریاں ہو کر چلنے کو بھی نام نہاد مہذب  دنیا اس کا اپنا ذاتی معاملہ کہہ کر  اسےشخصی آزادی  کا نام دیتی ہے تو جسم کو ڈھانپنا  کسی کا ذاتی معاملہ اور شخصی آزادی کیوں نہیں ہے؟ جب مذہب بیزاری  کسی کا پرائیویٹ معاملہ ہے تو مذہبی تعلیمات پر عمل کرناکیوں خلافْ قانون سمجھا جانے لگا ہے؟بھارتی میڈیا کے زہر ناک اینکر اس کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے اس سے یہ سوال کیوں کر رہے ہیں کہ آپ کے لئے تعلیم زیادہ اہم ہے یا پردہ؟اس بیٹی کی زندگی اس وقت بھی داؤ پر لگی تھی جب وہ نتائج کی ہولناکی سے بے نیاز نعرہٴ تکبیر بلند کئے جا رہی تھی اور اس کی زندگی اور عزت اب اس سے کہیں زیادہ خطرے میں ہے جب وہ یہ جرات مندانہ عمل کر گزری ہے۔

مغربی افکار و تعلیمات کے لئے کام کرنےو الی ملالہ کیلئے ہر مغربی ملک نے اپنے سرکاری محلوں کے دروازے کھول دئیے تھے ۔ لیکن کیا اسلامی شعائر  اور احکام خداوندی کی بجا آوری پر کلمہٴ حق بلند کرنےوالی مسکان کے لئے ستاون اسلامی ممالک میں کوئی ایک بھی جرات مند  لیڈر ہے جو اسے اس بہادر بیٹی کو بلا کر اس غیرت مند انہ  موقف کے اظہار پر سرکاری اعزاز سے نوازے۔

اسلامی ممالک کے ہزاروں مربع میل تک پھیلی ہوئی زمین پر کوئی ہے جو اسےبھی  خوش آمدید کہے کہ اس کی جان کو بھی اب محفوظ نہیں ۔حضورؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ۔جب اس کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے۔لیکن جب بھارت کے نام نہاد  پاکستان مخالف کسی مسلمان مذہبی لیڈر کو یہ کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ اس معاملے میں پاکستان دکھ کا اظہار کرنے کے لئے اپنی ٹانگ اور ناک نہ پھنسائے ہم خود اس کو دیکھ لیں گے تو دل چاہتا ہے  یہ پردہ اور نقاب ایسے مذہبی لبادہ اوڑھنے والوں کے چہروں پر ڈال دیا جائے تا کہ وحدت امت  اور اہل ایمان کو جسد واحد سمجھنے کا درد رکھنے والے سادہ لوح مسلمان ایسے مکروہ چہرے دیکھنے کی کراہت سے محفوظ رہ سکیں۔

  

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :