
زلزلہ آواران ۔ ایک سال بیت جانے کو ہے
منگل 12 اگست 2014

شبیر رخشانی
(جاری ہے)
زلزلہ آواران کو ایک سال بیت جانے کو ہے مگر آواران کے عوام وہی اپنے مشکلات اور پریشانی کا شکار ہیں۔ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ امداد تاحال آواران کے عوام تک نہیں پہنچ پا رہی ہے۔ اور نہ ہی زمین پر پڑے ملبے اٹھائے گئے ہیں۔ اگر پہنچ بھی پا رہی ہے تو غیر مبہم انداز میں۔ جس پر آواران کے عوام تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ اور سڑکوں پر نکل کر پروجیکٹ ڈائریکٹر کے خلاف اپنے احتجاج کا نعرہ بلند کر چکے ہیں۔ جبکہ موجودہ وقت حکومت کی جانب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آواران کے 16000منتخب گھرانوں کو فی گھرانے 2لاکھ پچاس ہزار روپے امداد کی صورت میں 3اقساط میں ادا کر دی جائیگی۔ جس پر آواران کے عوام نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں 3اقساط کے بجائے1ہی قسط میں امداد کی رقم ادا کر دی جائے۔ جس پر پروجیکٹ ڈائریکٹر نے انکے اس احتجاج کو رد کرتے ہوئے اسے تین اقساط میں دینے کا پروگرام برقرار رکھا۔ جس پر آواران کے عوام سخت پریشانی کا شکار ہیں ۔ کہ تین اقساط میں امداد دینے سے انکے مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ اور گزشتہ سردی کا موسم وہ کھلے آسمان تلے گزار چکے ہیں آنے والے سردی کے موسم میں وہ اسکے مزید شکار نہ ہو جائیں۔ اور ان 16000گھرانوں کا لسٹ بھی نمایاں نہ ہونے کی وجہ سے آواران کے عوام کو یہ بھی پتہ نہیں چل رہا ہے کہ ان لسٹ میں کس کا نام شامل ہے کس کا نہیں جس میں بدعنوانی کے چانسز کو رد بھی نہیں کیا جائے گا۔ زلزلے کے بعد جو سروے کیا گیا تھا اس میں 40ہزار سے زائد گھرانوں کی لسٹ بنائی گئی تھی لیکن بعد میں اسے یہ بہانہ بناکر کم کیا گیا اس لسٹ میں ان گھرانوں کے نام شامل نہیں ہیں جن کے گھر نہیں گرے ہیں جبکہ میں یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ جن کے گھر نہیں گرے تھے البتہ وہ گھر رہنے کے قابل بھی نہیں تھے۔ حکومت کا یہ جواز بنانا کہ باقی گھر درست حالت میں تھے ان گھرانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے سوا کچھ نہیں۔اور مذکورہ 16000گھرانوں کو چیک کی صورت میں ہر گھرانے کے سربراہ کو دیا جائے گا۔ یہاں پر یہ بات بھی امداد لینے والوں کے لئے پریشان کن ثابت ہوگی کہ ضلع میں چھوٹے پیمانے پر ایک ہی سرکاری بنک جس کے پاس اتنا رقم ہوتا ہی نہیں کہ وہ ان متاثرین کو بروقت امداد کی رقوم ادا کرے جسکا نتیجہ وہی زلزلہ زدگان کے مسائل میں اضافہ۔
دوسری جانب ایک بڑی زیادتی متاثرین کے ساتھ یہ بھی ہوئی ہے کہ بحالی کے اس کام کو ایک پروجیکٹ کی شکل دے دی گئی۔ اگر اسے پروجیکٹ کی شکل دینے کے بجائے آواران کے عوام کو رقم کی صورت میں امداد دی جاتی تو اس سے مزید گھرانوں کو امداد کی رقم موصول ہوتی۔ کیونکہ پروجیکٹ کا ایک خطیر رقم پروجیکٹ کے ملازمین اور آفس کے اخراجات اور فیلڈ کے اخراجات پر تین سال تک خرچہ کیا جاتا رہے گا۔ اور پروجیکٹ کے بہت سے اہم پوزیشنز پر غیر مقامی افراد کی تعیناتی بھی آواران کے عوام کے ساتھ ایک زیادتی ہے۔ اور آواران کے متاثرین کی بھی خواہش یہی تھی کہ انہیں رقم کی صورت امداد یکمشت دی جاتی تاکہ وہ اپنے گھروں کی تعمیرات بہتر انداز میں کرتے۔ تاہم موجودہ حکومت نے آواران کے زلزلہ متاثرین سے مشورہ کئے بغیر اور انکی رائے کو نظر انداز کرکے زلزلہ متاثرین کے مشکلات میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے آواران کے لئے اعلان کردہ ماڑل ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کہیں ہوا میں اڑ تو نہیں جائے گا؟ آواران ٹو کیچ روڑ کی تعمیر اور کیچ سے آواران کو بجلی کی فراہمی کا وعدہ کیا کبھی پورا ہو سکے گا؟ اور آواران کے زلزلہ متاثرین کی بحالی کا کام ممکن ہو سکے گا؟ میڈیا جس نے آواران میں زلزلے کی تباہ کاریاں اور پسماندگی کو شروع میں نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اور ضرورت اب بھی ہے کہ اگر میڈیا عمران خان اور طاہر القادری کو کوریج دینے سے فرصت ملے تو آواران کی طرف ضرور اپنا رخ کرے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
شبیر رخشانی کے کالمز
-
مسیحا کا قتل
منگل 22 دسمبر 2015
-
قتل یا خود کشی
ہفتہ 3 جنوری 2015
-
روزگار کے اشتہارات اور بے روزگار نوجوان
بدھ 31 دسمبر 2014
-
تعلیم یا بزنس
پیر 22 دسمبر 2014
-
جب ساون برسنے لگا
ہفتہ 22 نومبر 2014
-
سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت
منگل 18 نومبر 2014
-
بچپن کو صرف سوچا جا سکتا ہے
جمعرات 6 نومبر 2014
-
ذرا ہم انسان بھی
ہفتہ 25 اکتوبر 2014
شبیر رخشانی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.