چین کی معاشی ترقی ،دنیا کے وسیع مفاد میں

پیر 26 جولائی 2021

Shahid Afraz

شاہد افراز خان

عالمگیر وبا کے باعث عالمی معیشت میں بحالی کے امکانات بدستور غیر یقینی کا شکار ہیں کیونکہ وائرس کی نئی تغیرات نے انسداد وبا کی صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے جبکہ نئے مصدقہ مریضوں سمیت ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ بھی تشویشناک ہے۔ اسی باعث دنیا کے مختلف ممالک میں اقتصادی و سماجی شعبہ جات بدستور دباو کا شکار ہیں۔
دوسری جانب چین کی جانب سے جاری تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کی  پہلی ششماہی میں چین کی جی ڈی پی میں گزشتہ سال کے مقابلےمیں  12.7 فیصد کا اضافہ ہوا  ہے اور گزشتہ  دو سالوں میں اوسط شرح نمو 5.3 فیصد رہی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی ششماہی میں چین کی معیشت مستحکم اور  بہتر رہی ہے. اس دوران چین کی جی ڈی پی کی مجموعی مالیت 53.2ٹریلین یوان رہی ہے۔

(جاری ہے)

کہا جا سکتا ہے کہ جی ڈی پی کا"ڈبل ڈیجٹ" چین کی معاشی لچک کا ایک طاقتور عکاس ہے۔  وبائی صورتحال پر قابو پانے والے اولین ملک کی حیثیت سے جہاں چین نے ملکی سطح پر اقتصادی سماجی شعبے کو بحال کیا ہے وہاں اس نے دنیا کو وسیع پیمانے پر طبی سامان اور ویکسین فراہم کرتے ہوئے عالمی سطح پر "سپلائی چین" کو مستحکم رکھنے کی بھی بھر پور کوشش کی ہے ، اس سے بین الاقوامی تجارت اور صنعت سازی کوبھی فروغ دیا گیا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق  صحت عامہ کے اس عالمی بحران کے آغاز کے بعد چین نے 200 سے زائد ممالک اور خطوں میں انسداد وبا کا سامان فراہم کیا ہے۔
دوسری جانب مارچ 2020 سے دسمبر تک ، چین نے مجموعی طور پر 390 بلین امریکی ڈالرز مالیت کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون جیسی مصنوعات برآمد کی ہیں ، وبائی صورتحال کے دوران لوگوں نے اپنے گھروں میں رہتے ہوئےان مصنوعات کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔

چاہے وہ "ورک ایٹ ہوم" کی صورت میں ہو یا پھر آن لائن تعلیم کی صورت میں ،چینی مصنوعات نے دنیا کو آپس میں جوڑے رکھا ہے۔آئی ایم ایف نے بھی چین کے معاشی اشاریوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ چین نہ صرف عالمی معاشی نمو میں ایک اہم شراکت دار ہے بلکہ چین کی ترقی ایشیائی خطے میں بھی معیشت کی بحالی میں انتہائی مددگار ثابت ہو رہی ہے۔چین کی اعلیٰ درجے کی معاشی ترقی کے پیچھے کارفرما عوامل میں جامع صنعتی چین ، مضبوط انفراسٹرکچر ، جدید مینوفیکچرنگ کلسٹرز  اور ساتھ ہی نیا ترقیاتی فلسفہ بھی ہے ۔

اس نئے ترقیاتی نمونے کی نمایاں خصوصیات میں جدت ، ربط سازی ، ماحول دوستی ، کھلا پن اور اشتراک شامل ہیں۔
معیاری معاشی ترقی کے حصول میں  چین با سہولت اور آزادانہ تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دے کر ایک مزید پرکشش کاروباری ماحول تخلیق کر رہا ہے تاکہ باقی دنیا کے ساتھ مل کر کثیر الجہتی کے تحت آزاد عالمی معیشت تشکیل دی جا سکے  اور اشتراکی تعاون سے دنیا کے سبھی ممالک کے لیے یکساں اقتصادی ثمرات حاصل کیے جا سکیں۔

آزاد تجارتی معاہدوں میں شمولیت سے لے کر فری ٹریڈ زونز اور بندرگاہوں کے قیام تک ، چین ثابت قدمی سے ایک کھلی اور مربوط دنیا کی جانب آگے بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ وبا کے باعث بین الاقوامی صورتحال تیزی سے پیچیدہ ہوئی ہے اورمعاشی عالمگیریت کو تحفظ پسندانہ عناصر  کی شدید مخالفت کا سامنا ہے مگر چین کی مستقل پیش قدمی جاری ہے ۔چین تاحال 21 پائلٹ فری ٹریڈ زونز کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے پرکشش ترین منزل بن چکا ہے۔

چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے ذریعے  تجارت و سرمایہ کاری ، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور افرادی تبادلوں سمیت متعدد شعبہ جات میں اپنا تجربہ شیئر کررہا ہے جو بی آر آئی میں شامل ممالک کی معاشی جدت کاری کے لیے نہایت اہم ہے ۔
چین کے حالیہ معاشی اشاریوں کو دیکھتے ہوئے یہ امید ظاہر کی گئی ہے کہ دوسری ششماہی میں بھی ملکی معیشت میں مستحکم بحالی جاری رہے گی کیونکہ مجموعی طور پر  کھپت ، سرمایہ کاری اور غیر ملکی تجارت میں مستقل بہتری کا رجحان برقرار ہے جس سے چین کی معیشت میں استحکام اور مضبوطی میں مدد مل سکتی ہے۔

  چینی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لئے عالمی سرمایہ کاروں کا جوش و جذبہ بھی بڑھ رہا ہے۔ اس سے بیرونی دنیا کو چینی معیشت کی مضبوط لچک اور تیزی سے ابھرنے کی صلاحیت کو بھی دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ آگےبڑھنے کی جستجو میں چین اپنے دروازے بیرونی دنیا کے لیے وسیع تر کرتا چلا جا رہا ہے، چین اعلیٰ معیار کی ترقی کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے بین الاقوامی تعاون اور دنیا کی مشترکہ ترقی کے لیے سرگرم عمل ہے جس سے عالمی معیشت بھی زیادہ سے زیادہ مواقع اور فوائد حاصل کرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :