عالمی سطح پر"میڈ اِن چائنا" کی اہمیت

ہفتہ 6 نومبر 2021

Shahid Afraz

شاہد افراز خان

دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کی سال 2001میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت نہ صرف چین بلکہ دنیا کی ترقی کے لحاظ سے ایک اہم ترین پیش رفت شمار کی جاتی ہے۔ اس اہم نوعیت کی پیش رفت کی بدولت چین اور باقی دنیا کے درمیان تعامل سے عالمی اقتصادیات کی ترقی کو بھی نمایاں توسیع ملی مشترکہ ترقی کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں نمایاں مدد ملی۔


یہ بات قابل زکر ہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں دنیا کی اقتصادی ترقی میں اوسطاً 30 فیصد کا حصہ ڈالتے ہوئے، چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ترقی پزیر ملک ہے جبکہ متوسط  آمدنی کی حامل آبادی کے لحاظ سے بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔عالمی سطح پر چین کی معاشی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج چین 120 سے زائد ممالک اور خطوں کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے، جبکہ یورپی یونین اور آسیان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

(جاری ہے)


چین نے کھلے پن کو اپنی ترقی کی علامت قرار دیتے ہوئے اپنے معاشی ثمرات کا دیگر دنیا بالخصوص اپنے شراکت داروں کے ساتھ بھرپور تبادلہ کیا ہے ۔ امریکہ کے ساتھ چین کے تجارتی مراسم ایک عمدہ مثال ہے کہ کیسے دنیا کی دو بڑی طاقتیں عوام کے بہترین مفاد میں تنازعات کو پس پشت ڈالتے ہوئے عوامی مفادات کو ترجیح دے رہی ہیں۔اگرچہ حالیہ کچھ سالوں میں دونوں ممالک کے مابین تجارتی تنازعات بھی سامنے آئے ہیں مگر اس کے باوجود چین۔

امریکہ اقتصادی تعلقات میں "باہمی انحصار" کا عنصر مزید ابھر کر سامنے آیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے آٹھ ماہ میں امریکہ کے لیے چینی برآمدات میں کمی کے بجائے سال بہ سال 22.7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔فوربس میگزین کے مطابق  2020 میں امریکی مصنوعات کی مجموعی درآمدات میں چین سے درآمدات کا حصہ 19 فیصد تھا، جو  امریکہ کے دیگر تجارتی شراکت داروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے، جب کہ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی درآمدات میں سے 10 میں سے چار کا تعلق چین سے ہے۔


امریکی گھرانوں کے لیے بھی چین۔امریکہ بڑھتی ہوئی تجارت سے وسیع فوائد حاصل ہوئے ہیں۔یہ بات دلچسپ ہے کہ ہر امریکی خاندان دونوں فریقوں کے درمیان تجارتی روابط سے سالانہ 850 ڈالر بچا سکتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ "میڈ اِن چائنا" مصنوعات ایک طویل عرصے سے بہت سے امریکی گھرانوں کی روزمرہ  زندگی کا ایک ناگزیر حصہ بن چکی ہیں۔
امریکی کاروباری اداروں کے لیے بھی چین ایک پرکشش اور منافع بخش منزل ہے ۔

اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ نومبر 2019 میں جب دونوں ممالک کے درمیان ٹیرف معاملات پر یکطرفہ پسندی اور تحفظ پسندی کے بارے میں خدشات نے جنم لیا تو اُس وقت بھی 190 سے زائد امریکی کاروباری اداروں نے شنگھائی میں دوسری چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو میں شرکت کی، ایکسپو کے دوران امریکی کمپنیوں کا نمائشی علاقہ دیگر ممالک کی نسبت سب سے وسیع تھا۔

ان میں معروف کمپنیاں جنرل الیکٹرک کمپنی اور کول کام جیسے بڑے نام شامل تھے۔دنیا کے اہم کاروباری اداروں کی چین میں دلچسپی کی بڑی وجہ چینی حکومت کی سرمایہ کار دوست پالیسیاں ہیں اور اس کا واضح اظہار ابھی حال ہی میں چینی صدر شی جن پھنگ نے شنگھائی میں منعقدہ چوتھی چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چین کا اعلیٰ سطح کے کھلے پن کو وسعت دینے، ترقی کے مواقع کو دنیا کے ساتھ بانٹنے اور اقتصادی عالمگیریت کو مزید کھلے، ، جامع، متوازن اور مشترکہ مفادات کی سمت  فروغ دینے کا عزم مضبوط اور  برقرار رہے گا۔ چین غیرمتزلزل طور پر حقیقی کثیرالجہتی کو برقرار رکھے گا، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی درست سمت میں اصلاحات کی ترقی کی حمایت کرےگا، دنیا کے ساتھ مارکیٹ کے مواقع بانٹےگا، درآمدات کو بڑھانے اور تجارت کی متوازن ترقی کو فروغ دینے پرزور دیتا رہےگا۔

چین"غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے والی صنعتوں کی فہرست" کو وسعت دے گا، سبز اور کم کاربن، ڈیجیٹل معیشت اور دیگر بین الاقوامی تعاون میں حصہ لے گا، اور" ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ ایگریمنٹ" اور "ڈیجیٹل اکانومی پارٹنرشپ ایگریمنٹ " میں شامل ہونے کی کوشش جاری رکھے گا۔
شی جن پھنگ نے مزید کہا کہ چین غیرمتزلزل طور پر دنیا کے مشترکہ مفادات کا تحفظ کرے گا،" دی بیلٹ اینڈ روڈ" کی مشترکہ تعمیر کو فروغ دےگا،اقوام متحدہ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، گروپ آف ٹونٹی، ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے میکانزم کے تعاون میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا۔

چین موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے، عالمی غذائی تحفظ اور توانائی کی سلامتی کو برقرار رکھنے میں فعال طور پر حصہ لے گا اور جنوب۔جنوب تعاون فریم ورک کے تحت دیگر ترقی پذیر ممالک کو مزید امداد فراہم کرتا رہے گا۔
دنیا بھی چینی قیادت کے وعدوں پر اعتماد رکھتی ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ  کاروباری اداروں کی چین میں بڑھتی دلچسپی کا اہم نقطہ بھی یہی ہے کہ چین کے قول و فعل میں یکسانیت ہے۔

گزشتہ برس بھی دنیا میں وبائی صورتحال کے باوجود دنیا کی سرفہرست فارچون500 کمپنیوں میں شامل معروف صنعتی اداروں میں سے 70 فیصد جنہوں نے پہلی دو نمائشوں میں شرکت کی تھی، تیسری چائنا انٹرنیشنل امپورٹ میں دیکھے گئے۔ان میں عالمی صنعت کے رہنما فورڈ، لوئس ڈریفس اور روشے شامل ہیں۔رواں برس بھی  چوتھی ایکسپو کے مجموعی نمائشی رقبے کو مزید بڑھا کر 366000 مربع میٹر کر دیا گیا ہے جبکہ امریکہ، جاپان، جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک سے نمائش کنندگان کی ایک بڑی تعداد گزشتہ نمائشوں کی طرح شریک رہے گی۔

ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ  33کم ترقی یافتہ ممالک کے تقریباً 90 کاروباری ادارے بھی ایکسپو میں شریک ہوں گے ، جو اپنی خاص مصنوعات کی ایک بڑی تعداد کی نمائش کریں گے اور چین کی مارکیٹ میں داخل ہوں گے۔یوں چین ترقی کے عمل میں پسماندہ اور ترقی پزیر ممالک کی شرکت کو یقینی بناتے ہوئے بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کے تصور  کو حقیقی طور پر عملی جامہ پہنا رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :