اقتصادی تعاون کا نیا ماڈل

ہفتہ 27 نومبر 2021

Shahid Afraz

شاہد افراز خان

عالمی سطح پر  بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری ضوابط میں جدت اور بہتری کے حوالے سے بات کی جائے تو چین پاکستان اقتصادی راہداری ایک بہترین مثال ہے۔ سی پیک  کو دونوں ممالک کی بے مثال اور لازوال روایتی دوستی میں یقیناً ایک اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ یہ پاکستان کی اقتصادی سماجی ترقی کی ایک محرک قوت میں ڈھل  چکی ہے۔

یہ امر قابل زکر ہے کہ نومبر 2003  میں پاکستان اور چین نے دوطرفہ تعاون کی ترقیاتی سمت کے بارے میں ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیےتھے، 2006 میں دونوں ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ طے پایا، یہ اسی معاشی تعاون  کی اختراع اور ترقی کا نتیجہ ہی ہے  جس نے سی پیک کے ہموار آغاز کو یقینی بنایا اور آج یہ حقیقی معنوں میں ترقی کا ایک استعارہ بن چکی ہے۔

(جاری ہے)


ابھی حال ہی میں چین کی جانب سے کہا گیا کہ وہ  چین پاک اقتصادی راہداری کی تعمیر میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی حمایت اور سرمایہ کاری کو سراہتا ہے ۔  چین پاکستان اقتصادی راہداری چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ" انیشیٹو  کا ایک اہم مثالی  منصوبہ ہے اور یہ بات انتہائی اہم ہے کہ یہ اعلیٰ معیار کی ترقی کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ چین اور پاکستان دونوں اس منصوبے کی مقررہ مدت میں تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم ہیں۔

فریقین دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کے درمیان طے شدہ اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں، تاکہ سی پیک کے موجودہ منصوبوں میں پیش رفت کی بنیاد پر  صنعت ، زراعت، سماجی بہبود  اور  لوگوں کے معاش  سمیت دیگر  شعبوں میں تعاون پر مزید توجہ مرکوز کی جا ئے اور دونوں ممالک کے مشترکہ مفاد اور باہمی سودمند تعاون کے تحت سی پیک کی "بیلٹ اینڈ روڈ"  کے اعلیٰ معیاری ترقی کے ایک فلیگ شپ منصوبے کے طور پر تعمیر کی جائے۔


 پاکستان کے تناظر میں سی پیک کے وسیع ثمرات کا سلسلہ جاری ہے اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ،توانائی کے بحران پر قابو پانے سمیت روزگار کے نئے مواقعوں کی فراہمی میں یہ کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ سی پیک اتھارٹی حکام کے مطابق صنعتی زونز کے قیام سے مقامی صنعت کاروں کےلئے سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے ، اسی طرح چینی صنعتوں کی پاکستان میں منتقلی سےروزگار کے نئے مواقع، مختلف شعبوں میں معلومات کا تبادلہ اور ہنرمند افرادی مہارت میں بھی اضافہ ہوگا۔

چین کا شمار اس وقت دنیا میں الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری اور استعمال کے اعتبار سے بڑے ترین ملک میں کیا جاتا ہے اور سی پیک کے تحت یہ توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان کی سڑکوں پر بھی بہت جلد الیکٹرک گاڑیاں کثیر تعداد میں نظر آئیں گی، اسی طرح سی پیک کے دوسرے مرحلے میں دونوں ممالک کے درمیان زرعی تعاون کو بھی نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان زرعی شعبے میں چین کے تجربات سے بھر پور استفادہ کرنا چاہتا ہے تاکہ زرعی پیداوار کو بڑھایا جاسکے۔

زراعت کی ترقی کے لیے چینی کمپنیاں زرعی مشینری سمیت کیڑے مار ادویات کی تیاری کے لیے سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے ہرممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں جبکہ  چینی سرمایہ کاروں سے براہ راست رابطوں کے لئے ون ونڈو آپریشن شروع کیا جارہاہے ۔اسی طرح چین کی چھوٹی نجی کمپنیاں الیکٹرانک، ٹیکسٹائل، تعمیراتی سامان اور آٹو سیکٹر میں کام کر رہی ہیں۔

سی پیک کے دوسرے مرحلے میں دونوں ممالک گوادر پورٹ کو ترقی دینے، صنعتی پارکس کی تعمیر، زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی میں تعاون کے لیے ہر ممکن اقدامات کے لیے پر عزم ہیں۔ چین کی کوشش ہے کہ پاکستان کو صنعت کاری، شہر کاری ،ڈیجیٹائزیشن اور زراعت کے شعبہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں مدد  فراہم کی جا سکے۔چین کے سرمایہ کار اسٹیل مل، سیمنٹ، توانائی، ٹیکسٹائل اور آٹو سیکٹر کے شعبے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔


یہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سی پیک کی تعمیر نے عالمی سطح پر بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں اقتصادی تعاون کا ایک نیا نمونہ تشکیل دیا ہے۔ اس منصوبے کی کھلی اور  اشتراکی نوعیت ،  حقیقی تعاون کا طریقہ کار ، باہمی  ثمرات اور ٹھوس سودمند تعاون کا تصور  نیز مشترکہ ترقی کا ہدف ، یہ عوامل سی پیک کو  دوسرے ممالک کے لیے بھی پرکشش بناتے  ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ کئی علاقائی ممالک بھی سی پیک کی تعمیر میں شراکت کے خواہاں ہیں کیونکہ یہ تمام ممالک کی ترقی کے لیے نئے مواقع سامنے لا رہی ہے۔سی پیک کی تیز رفتار ترقی جہاں اقتصادی ترقی کے اعتبار سے اہم ترین کامیابی بن رہی ہے وہاں پاکستان کی کوشش ہے کہ ایک سازگار کاروباری ماحول کے  قیام سے چین سمیت دنیا بھر سے سرمایہ کاروں کو راغب کیا جا سکے اور ملکی معاشی سماجی ترقی کا ایک نیا سفر شروع کیا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :