چین کا عوامی حاکمیت کا تصور

منگل 7 دسمبر 2021

Shahid Afraz

شاہد افراز خان

سیاسی مبصرین کے نزدیک دنیا میں اگر حقیقی جمہوریت کو پرکھنا ہو تو  اس کے صرف دو ہی پیمانے ہیں اول ، عوام کا اطمینان اور دوسرا عوام کاحکومت پر اعتماد ۔اس تصور کی اگر مزید وضاحت کی جائے تو  کہا جا سکتا ہے کہ اگر جمہوریت عوام دوست ہو گی اور عوامی فلاح پر مبنی ہو گی تو  اسے اپنی عوام میں اُسی قدر مقبولیت  حاصل رہے گی۔ مختصراً یوں کہا جا سکتا ہے کہ اصل جمہوریت عوام کی حاکمیت اور مرکزیت میں پنہاں ہے۔

ایک سیاسی جمہوری نظام میں اگر عوام کی مرکزی حیثیت کو مدنظر رکھ کر فیصلے کیے جائیں ، عوام دوست سازگار پالیسیاں اپنائی جائیں اور قانون سازی سمیت دیگر فیصلہ سازی کے امور میں عوام کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے تو کوئی شک نہیں کہ یہ جمہوری ماڈل ضرور کامیاب ہو گا۔

(جاری ہے)


دنیا میں مختلف جمہوری نمونوں کی بات کی جائے تو ابھی حال ہی میں چین نے ملک میں فعال جمہوریت سے متعلق ایک وائٹ پیپر جاری کیا جس میں چین کے جمہوری تصورات، جمہوری نظام اور کامیاب جمہوری طرز عمل کو جامع طور پر متعارف کروایا گیا ہے ۔

وائٹ پیپر میں جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے  وہ یہ ہے کہ عوام ہی ملک کے اصل حکمران ہیں۔ یہی چینی جمہوریت کا نچوڑ اور مرکز ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ جمہوریت ایک آرائشی زیور نہیں ہے، بلکہ عوام کے لیے باعث تشویش مسائل کو حل کرنے کا ایک مضبوط آلہ ہے۔ کوئی ملک جمہوری ہے ، اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آیا اس کے لوگوں کو حقیقی معنوں میں ملک کے حکمران کا درجہ حاصل ہے کہ نہیں۔

چین میں ریاست کی طاقت کبھی بھی ذاتی دولت، حیثیت یا سماجی تعلقات سے مرعوب نظر نہیں آتی ہے بلکہ سارے چینی عوام یکساں طور پر  جمہوری ثمرات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ چین کی ہمہ گیر جمہوریت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ عوام وسیع  پیمانے پر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں، وسیع مشاورتی عمل میں بھرپور شرکت سے فیصلہ سازی میں شامل ہو سکیں اور اتنے بااختیار ہوں کے اپنے معاملات خود سنبھال سکیں۔


یہاں جمہوریت کا مطلب ہے کہ انتخابات، مشاورت، فیصلہ سازی، انتظام اور نگرانی کے دوران عوام کی آوازیں سننا اور ان کا احترام کرنا۔چین میں جمہوریت لوگوں کے وسیع حقوق، موثر قومی گورننس، سماجی استحکام، اور طاقت کے استعمال کی موثر نگرانی کی شرط ہے۔ چین نے اپنے قومی تقاضوں اور عوامی امنگوں پر مبنی جمہوری طرز حکمرانی کا ایک ماڈل اپنایا ہے۔

مغربی اداروں کی سروے رپورٹس بھی ظاہر کرتی ہیں کہ چینی عوام کی اپنی حکومت پر اعتماد کی شرح  ہر سال 90 فیصد سے زائد رہتی ہے۔ یہ چینی جمہوریت کی مضبوط قوت کا حقیقی عکاس ہے۔ یہ سچ ہے کہ چین کی قیادت کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے ہاتھ میں ہے لیکن اسے کبھی بھی یک جماعتی حکمرانی کے نظام سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ سی پی سی کے علاوہ، آٹھ دیگر سیاسی جماعتیں ریاستی امور کے انتظام میں مکمل طور پر حصہ لیتی ہیں۔

سی پی سی بڑی پالیسیوں پر دیگر جماعتوں اور  پارٹی سے غیر وابستہ افراد سے مشاورت کرتی ہے اور ان کی جمہوری آراء کو خوشی سے قبول کیا جاتا ہے۔اقتصادی سماجی میدان میں چین کی حاصل کردہ کامیابیاں سی پی سی کی قیادت میں کثیر الجماعتی تعاون اور سیاسی مشاورت کا ہی نتیجہ ہیں ۔ چین کی کامیابیاں اس لیے بھی ممکن ہو پائی ہیں کہ قیادت نے اپنی تمام تر کوششیں سیاستدانوں یا مفاد پرست گروہوں کے تحفظ کے بجائے اپنے عوام کی خدمت میں لگائی ہیں. جبکہ کچھ ممالک اور خطوں میں آج "سیاست" طاقتور اور امیر وں کا کھیل بن چکی ہے۔


گزشتہ 100 سالوں میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مسلسل تحقیق، بالخصوص سی پی سی  کی 18ویں قومی کانگریس کے بعد سے عوامی جمہوریت کے عمل کو جس بھرپور طریقے سے فروغ دیا گیا ہے، نے ظاہر کیا ہے کہ جمہوریت کے حصول کے کئی طریقے ہیں۔انتخابات کی ہی مثال لی جائے تو چین میں تمام سطحوں پر عوامی کانگریس میں نائبین کا انتخاب براہ راست انتخابات اور بالواسطہ انتخابات کے امتزاج کو اپناتا ہے۔

چین میں قانون سازی یا دیگر  تمام بڑے فیصلے جمہوری غور و فکر اور سائنسی و جمہوری فیصلہ سازی کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔فیصلہ سازی کے عمل میں  نچلی سطح سے زیادہ سے زیادہ آوازوں کو شامل کیا جاتا ہے اور یہی عوامی رائے ، حکومت کے بڑے فیصلوں میں بدل جاتی ہے۔ چینی جمہوریت کا کامیاب ماڈل ثابت کرتا ہے کہ مغربی طرز کی جمہوریت ،  جمہوریت کی واحد اور جامع شکل نہیں ہے اور نہ ہی جمہوریت کا کوئی طے شدہ سنگل ماڈل ہے ۔

کسی بھی ملک میں مختلف سیاسی نظام اور ڈھانچے ہو  سکتے ہیں لیکن یہ کسی کو بھی حقیقی جمہوریت کے طور پر کام کرنے سے نہیں روکتے ہیں۔ چین نے یہ عزم ظاہر کیا ہے کہ آئندہ بھی عوامی جمہوریت کے ہمہ گیر عمل کو  آگے بڑھائے گا، بین الاقوامی تعلقات کی جمہوری اقدار کو فروغ دے گا اور انسانی سیاسی تہذیب کی ترقی کو بام عروج پر پہنچائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :