"توفیقِ الٰہی"

بدھ 16 دسمبر 2020

Shahzad Ali

شہزاد علی

"ان شاءاللّٰہ ہم اپنے حصے کا دیا جلا کے رکھیں گے"۔
کہا جاتا ہے کہ کسی کو ہدایت دینا یا نہ دینا اللّٰہ پاک کا کام ہے، ہمارا نہیں، لیکن ایک اہم بات جاننا نہایت ضروری ہے۔ جو لوگ اللّٰہ پاک سے ہدایت حاصل کرنے کی توفیق مانگتے ہیں، اللّٰہ پاک ہدایت کے دروازے بھی اُنہی پہ کھولتا ہے۔
ہدایت کِن لوگوں کا مقدر ٹھہرتی ہے؟
جو لوگ ہدایت حاصل کرنے کی توفیق مانگتے ہیں۔

البتہ ہدایت کی توفيق مانگنے سے پہلے بندے کا متقی ہونا نہایت ضروری ہے۔ متقی کے دو معانی لئے جاتے ہیں، ایک ہے پرہیزگاری اور دوسرا ہے اللّٰہ پاک سے ڈرنا۔ جیسا کہ سورہ بقرہ میں اللّٰہ پاک نے ارشاد فرمایا: "ھُدی اللمتقین"
ترجمہ: "ہدایت ہے متقی لوگوں کے لئے".
ہدایت کا مِل جانا نہایت خوش نصیبی ہے تاہم ملتی صرف اُن لوگوں کو ہے جو متقی ہوں اور اُنہیں مانگنے کا ڈھنگ آتا ہو۔

(جاری ہے)

یعنی ہدایت مانگنے کے لئے سب سے بہترین طریقہ عاجزی و انکساری کے ساتھ متقی لوگوں جیسا طریق اختیار کر کے دِل سے دعا مانگنا ہوتا ہے۔ جب تک بندہ اپنے خالق و مالک سے راہِ ہدایت  کی توفيق نہیں مانگتا، دُنیا میں ہدایت کی راہ سے دُور ہی رہتا ہے اور آخرت میں کسی بھی ترقی و منزل کا حصول اُس کے لٸے ناممکن سا ہوتا ہے۔ لہٰذا راہِ ہدایت پانے کے لٸے دُعا میں توفیقِ الٰہی مانگنا انتہائی ضروری ہے۔

کیونکہ اُسکی توفیق کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔
دُنیا کے سارے کام بندہ رزق تلاش کرنے کے لٸے کرتا رہتا ہے، جبکہ ۱۲ویں سپارے کی پہلی آیت میں اللّٰہ پاک نے تمام روٸے زمین کو رزق عطا کرنے کا ذمہ خود پہ اُٹھانے کا وعدہ فرما رکھا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالٰی ہے: ”وما من دابة فی الارض الا علی اللّٰہ رزقہا“
ترجمہ: ”اور زمیں پر چلنے والا کوٸی بھی جاندار ایسا نہیں جس کی روزی اللّٰہ تعالٰی کے ذمہ کرم پر نہ ہو“۔

یعنی رزق دینے کا وعدہ فرما رکھا ہے جس کے بعد انسان (جو کہ خلیفة اللّٰہ یعنی نائب ہے) کو اپنے خالق پر مکمل توکل ہونا چاہٸیے تھا لیکن افسوس کہ بندہ راہِ ہدایت سے اِس قدر دُور ہُوا کہ آج اُس پہ معمولی سی پریشانی یا بیماری کا حملہ ہو جاٸے تو وہ فوراً مایوس کا شکار ہو جاتا ہے، بلکہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اپنے خالق اور مالک پر اُمید رکھنے کی بجائے مایوسی کے عالم میں وہ لاکھوں کروڑوں روپے پانی کی طرح بہا دیتا ہے، جس کے بعد بھی اُسے شفاء نصیب نہیں ہوتی ہے۔

اِس کے برعکس ایک باعمل اور متقی و پرہیزگار انسان جس نے ہر وقت مالک پاک سے اُس کے رحم اور کرم کو طلب کِیا ہو، جس نے اپنے تمام اعمال ہمیشہ توفیقِ الہیہ سے مزین رکھے ہوں، جس کے پاس محض توکل اِلی اللّٰہ کے سوا کچھ بھی نہ ہو اور اُس شخص کا اپنے خالق و مالک پر اِس قدر مضبوط ایمان ہو کہ شفاء دینے والی ذات صرف اور صرف اللّٰہ پاک کی ہے تو اُس کے دِل میں ہمیشہ اُمید کی کرن روشن رہتی ہے جس کی بناء پر اللّٰہ تعالیٰ اُس شخص کو شفایابی عطا فرما دیتا ہے۔

یہ سب کیا ہے؟
فقط اور فقط خالص دُعا اور خالص عمل کا نتیجہ ہے کہ جو انسان کے دِل میں اُمید کی شمع کو روشن اور باقی رکھتی ہے۔
 اگر بندہ فقط رزق حاصل کرنے کی دور میں پڑ جائے تو نتیجہ بھی اُس کے سامنے ہے۔ کیوں نہ ایسا ہو کہ وہ صرف اِس دوڑ میں پڑنے کی بجائے علم و ہنر اور اچھی تربیت حاصل کرنے کی دوڑ میں بھی حصہ لے اور حصہ دِلوانے کی کوشش کرے، جس سے بندے کے اندر ہوائے نفس کو بیدار ہونے کا موقع مِلنے کی بجائے ہدایت کی راہ تلاش کرنے کی توفیق مانگنے کی دعا کرنے کا موقع مِل سکے، البتہ ہدایت کی راہ کا مِلنا اِتنا آسان نہیں جتنا ہم نے سمجھ رکھا ہے۔

جیسا کہ اللّٰہ پاک نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہُوا ہے کہ ”بہت سے لوگ ایسے ہیں جو علم حاصل کر کے بھی گمراہ ہو جاتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو علم حاصل کر کے ہدایت پا جاتے ہیں“۔ اِس سے کیا مراد ہے؟
دراصل جو لوگ ہدایت کی تلاش میں ہی نہیں ہوتے، گمراہی اُن کا مقدر بن جاتی ہے جبکہ اِس کے برعکس ہدایت تلاش کرنے والے پہ کرم ہو جاتا ہے۔

کیونکہ وہ فکر کرتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں، رب کے حضور گڑگڑاتے ہیں، مخلوقِ خدا سے ہمدردی رکھتے ہیں، حتیٰ کہ کسی بھی نیکی کو چھوٹا سمجھ کے نہیں چھوڑتے کہ یہ تو معمولی سی نیکی ہے، اور نہ ہی یہ سوچ کر کوئی گناہ کرتے ہیں کہ یہ تو چھوٹا سا گناہ ہے، یعنی وہ اپنے عمل میں اِس قدر خالص ہوتے ہیں کہ رب سے دُور ہو جانے کے ڈر سے دِل میں ذرا برابر بھی بدگمانی پیدا نہیں ہونے دیتے، ایسے انسانوں پہ اللّٰہ پاک کرم کیوں نہ کرے؟ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو دُنیاوی تعلیم تو چھوڑیں اگر قرآن پاک کا علم بھی حاصل کرتے ہیں تو فقط اپنی اصلاح کی خاطر اور راہِ حق یعنی راہِ ہدایت حاصل کرکے اُس پر استقامت حاصل کرنے کی خاطر۔


دُعا مانگنا اِس لئے بھی ضروری ہے کہ اللّٰہ پاک سے توفیقِ الٰہی کو اپنی طرف متوجہ کروایا جائے۔ ہم اللّٰہ پاک سے اِس لئے بھی دُعا مانگتے ہیں کیونکہ یہ اللّٰہ پاک کا اپنا حُکم بھی ہے کہ اے بندے مجھ سے مانگ کہ میں تجھے عطا کروں، لیکن افسوس کے بندہ کچھ مانگتا بھی ہے تو صرف دُنیا کی آسائشیں ہی مانگتا ہے۔ کبھی مالک پاک سے اُسکی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اُس سے ہدایت کی طلب نہیں کرتا۔

اسی لئے ناصرف انفرادی طور پر بلکہ جملہ طور پر عالمی سطح پہ آج بندہ مسلماں ذلیل و خوار ہو رہا ہے۔ مال و دولت کی فراوانی کے باوجود نہ اُسے ذہنی سکون ہوتا ہے اور نہ ہی قلبی سکون ہوتا ہے۔
آج ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
ہمیں راہِ حق یعنی ہدایت کی راہ پہ چلنے کے لیے توفیقِ الٰہی مانگنی ہے اور پھر ہدایت کے ملنے کی اُمید اور توقع رکھنی ہے۔

اُس کا طریقہ یہ ہے کہ صدقِ دل سے دُعا کے بعد ہدایت کے عطا ہو جانے تک ہر گناہ سے بچنا ہے، نیکی کے کام زیادہ  کرنے ہیں، دِل میں اللّٰہ پاک کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے نیک کام زیادہ سے زیادہ کرنے ہیں، ورنہ اگر دِکھاوے کی نیت سے نیکی کی گئی تو کوئی بھی نیک عمل درحقیقت گناہ ہی تصوّر کیا جا رہا ہوتا ہے، یاد رکھیں ”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے“۔

بُرائی سے بچنے اور اچھائی کے کام کرنے کے علاوہ اللّٰہ پاک کے کرم کا ہر وقت منتظر بھی رہنا ہے، کیونکہ یہ کسی کے علم میں نہیں ہوتا کہ اللّٰہ پاک ہدایت کا دروازہ بندے پہ کِس کے ذریعے کھولے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللّٰہ پاک کسی بندے کے ذریعے ہی
 ہدایت کا پیغام کسی بندے تک پہنچانا چاہتا ہو۔ جب تک ہدایت کا پیغام لے کر کوئی وسیلہ بندے تک نہیں پہنچ جاتا تب تک ہدایت مانگنے کی جتنی بار دُعا کی جائے، کم ہے۔

وسیلہ جو بھی ہو، اپنی عقل و شعور کے دروازے ہمیشہ کُھلے رکھنے والوں کے نصیب میں ہی منزلیں ہُوا کرتی ہیں۔ کیونکہ بعض دفعہ غفلت کی وجہ سے بندے کی توجہ کہیں اور چلی جاتی ہے اور وہ پیغامِ ہدایت کو سننے اور سمجھنے سے محروم ہو جاتا ہے لہٰذا جو بندہ ہر وقت اپنے ہوش و حواس اور عقل و شعور پہ توجہ رکھتا ہے اُس کو ایک نہ ایک دن منزل ضرور تلاش کر لیتی ہے۔
اِس دُنیا میں فقط کھا پی کے واپس نہیں جانا بلکہ راہِ ہدایت پا کر اپنی زندگی کا عملی کردار پیش کرنے کے لئے اپنے حصے کا دِیا جلانا ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اپنا روشن مستقبل راہِ ہدایت پہ ہی تلاش کر سکیں ورنہ کل بروزِ قیامت محشر کے دن ہمیں شرمندگی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :