"قوّتِ مدافعت"

ہفتہ 19 دسمبر 2020

Shahzad Ali

شہزاد علی

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پہ کرونا وباء کا حملہ نہیں ہُوا، جبکہ بالواسطہ یا بِلا واسطہ ہم سب اِس کے حملے کی زد میں آ چُکے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہمیں اِس کا نقصان کیوں نہیں ہو؟
دراصل ہمارے وجود میں وباء کے اثر کی کمی اور قوّتِ مدافعت میں بڑھوتری کی وجہ سے یہ وباء ہم پر اثر انداز نہیں ھوتی، یعنی سر نہیں اُٹھا پاتی۔
قوّتِ مدافعت میں کمی کیسے واقع ہوتی ھے؟
نہ صرف برائلر چِکن کو خوراک کا حصہ بنانے سے بلکہ کھانے پینے اور صفائی کا خاص خیال نہ رکھنے جیسی کئی بے احتیاطیوں کی وجہ سے قوت مدافعت میں کمی واقع ھو جاتی ھے۔

جن میں سے چند ایک مزید بے احتیاطی والی سرگرمياں مندرجہ ذیل ہیں۔
1- خواہشاتِ نفس:
گناہ کرنے والی بُری سوچیں پالنا، بُرے خیالات میں رہنا، بُری صحبت اختیار کرنا، جھوٹ بولنا، سب سے بنیادی معاشرتی گناہ زِنا ھے یعنی جنسی گناہ جیسی بُری حرکات کا کرنا۔

(جاری ہے)


2- خوراک:
جو رزق ہم کھاتے ہیں، ہمارا کردار بھی اُسی کے مطابق ڈھلتا ہے، کیونکہ ہر خوراک کی ایک تاثیر ہوتی ہے جس سے بالواسطہ یا بلا واسطہ انسانی وجود پہ اچھا یا بُرا اثر پڑتا ہے۔

لہٰذا خوراک کا اعلیٰ، حلال اور حفظانِ صحت کے اُصولوں کے مطابق نہ ہونا، اعتدال پسندی کے ساتھ کھانا نہ کھانا، حرام رزق متواتر کھانا اور ایسی خوراک کھانا جو قدرتی کم اور مصنوعی ذیادہ ہوں۔
3- بُرے اعمال:
بندہ اللّٰہ پاک کے گھر ہی کیوں نہ بیٹھا ہو، اگر وہاں بھی سود کا کاروبار یا کاروباری لین دین کا سلسلہ جاری ہو تو ایسا عمل بندے کی اندرونی اور بیرونی صحت پر انتہائی بُرا اثر ڈالتا ھے، ایسے اور دیگر بُرے اعمال جیسی روِش سے باز نہ آنا جیسی بے احتیاطیاں شامل ہیں۔


اِن تمام مندرجہ بالا بے احتیاطیوں کی وجہ سے انسانی وجود پر برا اثر کے پڑنے کی وجہ سے قوّتِ مدافعت پہ بھی برا اثر پڑتا ہے جس سے قوت مدافعت میں کمی واقع ہو جاتی ھے جس کے باعث کرونا وباء جیسی کئی بیماریاں یا وبائی امراض ہمارے وجود میں اپنا اثر مظبوط کر لیتی ہیں۔ اس کے بعد وہ وباء چاہے کرونا وباء کی صورت میں ہو یا کسی اور وباء کی صورت میں، اُس وباء کی موجودگی کی علامات وقت کے ساتھ ساتھ انسانی جسم سے ظاہر ہونا شروع ھو جاتی ہیں۔


اِس کی بنیادی وجہ کیا ٹھہرتی ہے؟
"بے احتیاطی"
بے احتیاطی کرنا اپنے وجود پہ کِیا جانے والا سب سے بڑا اور بے جا ظلم ہے۔
وہ اندرونی طاقت، وہ قوت جو اندر کی بیماریوں کو اندر ہی مار دیتی ھے یا اُس کو ختم کرنے تک مزاحمت کرتی رہتی ھے، اور باہر سے آنے والی بیماریوں کے خلاف بھی مزاحمت کرتی ہے، یعنی باہر سے آنے والی کوئی بھی بیماری اگر جسم میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو اُس کے تدارک کے لئے فوری کارروائی کرتی ھے، اُسے قوّتِ مدافعت کہتے ہیں۔

مذکورہ بالا بے احتیاطیوں کی وجہ سے بندہ اِس اندرونی فوج (قوتِ مدافعت) سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے جس کے بعد ایسے بندے کا وجود بہت جلد بیماریوں کا شکار ہو کر مختلف بیماریوں کا گھر بن جاتا ہے۔ نتیجتاً بندہ موت کی طرف تیزی سے بڑھنے لگ جاتا ہے۔
"قوت مدافعت" کی صورت میں انسانی وجود کے اندر اللّٰہ پاک نے ایک قدرتی نظام رکھا ہُوا ھے جو نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی بیماریوں کے حملوں سے بھی لڑ کر انسان کے وجود کو صحت مند اور تندرست رکھنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتا ھے۔


انسانی معدہ اگر مضبوط نہ ھو تو قوّتِ مدافعت کی مقدار میں بھی کمی واقع ہو جاتی ھے، جس سے انسان کی اندرونی طاقت (قوتِ مدافعت) کسی خطرناک وباء کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو جاتی ہے، یعنی تب بندے کے جسم پہ کرونا وباء جیسی کوئی بھی وباء بآسانی اثر کر سکتی ھے۔ لہٰذا وجود کے اندر قوت مدافعت نہ ھو یا کم ہو تو کرونا وباء جیسے حملے سے کوئی کیسے بچ سکتا ہے؟ اِسی طرح تمام مصنوعی خوراکیں اور فاسٹ فوڈ وغیرہ جس میں طاقت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہوتی، اگر بندہ ایسی خوراک کا استعمال جاری رکھتا ہے تو انسانی وجود طاقتور ہونے کی بجائے کمزور رہتا ہے اور کرونا وباء جیسی دیگر خطرناک وبائیں انسانی وجود میں داخل ھو کر مزید طاقتور ھو جاتی ہیں اور مختلف بیماریوں کا موجب بن جاتی ہیں۔

اگر حملہ کرونا وباء کا ہو تو پھر اُس کے حساب سے ہمارے وجود میں سے علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً خشک کھانسی، بخار، سر درد، زبان کا بے ذائقہ ہو جانا اور زکام میں شدت وغیرہ۔
زکام کیا ہے؟
زکام بذاتِ خود ایک وائرس کہلاتا ھے۔ یہ بھی قوت مدافعت میں کمی یا کمزوری اور رطوبت کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

جسکی وجہ سے ہر سال کئی اموات بھی ہوتی ہیں۔ اِس سے تو ویسے بھی بچا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ زکام کے ہو جانے سے ہم خود کو روک نہیں سکتے۔ اگر ہو جائے تو معالج یہی مشورہ دیتے ہیں کہ زکام کو کم از کم دو دن بہہ جانے دینا چاہیئے۔ اُس کے بعد کوئی دوا، خوراک یا کسی تدبیر کو اختیار کرنا چاہیئے جس سے قوت مدافعت بڑھ جائے اور زکام سے شفاء حاصل ہو جائے۔

زکام کے ہونے کی کئی وجوہات ہیں، جن سے آگاہی حاصل کر کے زکام کے بار بار ہونے سے خود کو بچایا جا سکتا ہے۔
کِن اقدامات پہ عمل نہ کرنے کی وجہ سے زکام کے بار بار ہو جانے کا امکان رہتا ہے؟
1- متواتر واک کے نہ ہونے سے،
2- بے وقت سونے اور اُٹھنے سے،
3- کسی جسمانی سرگرمی کے اختیار نہ کرنے سے یعنی کسی بھی کھیل کُود کی سرگرمی کے نہ ہونے سے،
4- نماز پابندی سے قائم نہ کرنے سے،
5- حفظانِ صحت کے اصولوں کے عین مطابق کھانے پینے کی روِش وغیرہ کے اختیار نہ کرنے سے۔


کیا ہمیں قوت مدافعت کو بڑھانے اور احتیاطی تدابیر پہ عمل کرنے کے لئے اپنے ساتھ تہیہ نہیں کرنا چاہیئے؟ اپنی صحت کا خیال رکھنا، قوت مدافعت کو بڑھانا اور اپنی خوراک اور اپنا رزق (جو ہم کما رہے ہیں) حلال طریقے سے کمانا وغیرہ، یہ سب ہم کِس کے لئے کرتے ہیں؟ یقیناً اپنے لئے تاکہ ہم مضبوط ہوں، یعنی اپنے والدین کے لیے جن کا ہم سہارا ہیں، اپنے بیوی بچوں کے لیے جن کا ہم سب کچھ ہیں، اپنے بہن بھائیوں کے لیے جن کی ہم طاقت اور فخر ہیں اور اپنے معاشرے کے لئے جن کو ہمارے مثبت کردار کی اشد ضرورت ہے۔
اللّٰہ پاک ہمیں احسن اقدامات اُٹھانے کیلئے فکر کرنے اور ملک و مِلت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :