مقصدِ حیات

پیر 7 دسمبر 2020

Shahzad Ali

شہزاد علی

انسان کون ھے؟انسان کہاں سے آیا ھے؟انسان اِس فانی دُنیا میں کیوں آیا ھے، یعنی انسان کا مقصدِ حیات کیا ھے؟
جانئے اِن سوالات کے حقیقی جوابات.
آج تک ہم دوسری چیزوں کے پیچھے بھاگتے رہے، آج تک کبھی ہم نے یہ نہیں سوچا کہ اللّٰہ پاک نے ہمارے اندر کتنی طاقت رکھی تھی. اگر آج ہم تھوڑا سا بھی غور کر کے اپنے اندر کی طاقت کو جان لیں ناں تو یقین مانیں کہ ہم کبھی بھی کسی کے سامنے نہیں جھکیں گے، کبھی بھی.

صرف رب سے مانگیں گے صرف رب سے،  کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
"اے غافل انسان، اپنی خودی پہچان"
کیونکہ آج تک ہم نے کبھی بھی اپنا خیال نہیں رکھا، جی ہاں کبھی بھی نہیں.

(جاری ہے)

یعنی آج تک جس جسم کا ہم خیال رکھ رہے ہیں یہ ہمارا اصل وجود ھے ہی نہیں، ہاں جی، حقیقت والی زندگی میں ہم ابھی تک داخل ہی نہیں ہوئے. آج تک ہم یہ ہی سمجھتے رہے کہ ہمارے اِس مٹی سے بنے جسم ہی نے اللّٰہ پاک کو اپنا حساب دینا ھے، یعنی قبر کے تین سوالات کے جوابات دینے ہیں، جبکہ اِس مٹی کے جسم سے سزا و جزا دینے کے لئے حساب کتاب ہی نہیں ہونا.

تو پھر کون ہیں ہم، کون ہوں میں، ہم ہیں انسان لیکن کیا ہمارا مٹی کا جسم انسان ھے؟ نہیں، جی ہاں یہ جسم انسان کا صرف ایک ظاہری پہلو یعنی ظاہری حصہ ہے. یہ ظاہری اور مٹی والا جسم تو ایک نطفے کی پیداوار ھے، یعنی ایک گندہ قطرہ، کہ جو قطرہ ہمارے کپڑوں پہ لگ جائے تو ہم نا پاک ھو جاتے ہیں... جبکہ اللّٰہ پاک نے تو انسان کے بارے میں سورہ والتین کے اندر 6 قسمیں کھا کر فرمایا کہ "میں نے انسان کو نہایت احسن صورت پر پیدا فرمایا" اللّٰہ پاک نے انسان کے لئے 6 قسمیں کیوں اُٹھائیں، کیا یہ 6 قسمیں ہمارے اِس ظاہری مٹی کے جسم کے لئے اُٹھائی گئیں؟ نہیں، جی بالکل بھی نہیں...

یعنی پتہ چلا کہ آج تک ہم نے صرف اپنے اِس ظاہری جسم کی ضرورتوں کو ہی پورا کِیا، جبکہ یہ فنا ھو جانا ھے. آج تک ہم اِسی کو انسان سمجھتے رہے، اِس کے لئے کھانے، پینے، اُٹھنے، بیٹھنے، پڑھنے، اور علاج کرنے جیسی ہر چیز کا انتظام و اہتمام کِیا. جس حقیقی انسان کے بارے میں اللّٰہ پاک نے قسمیں اُٹھائی ہیں، کیا اُس کے بارے میں کبھی ہم نے سوچا کہ اُس کی کیا ضروریات ہیں، کبھی سوچا کہ جس نے اللّٰہ پاک کی بارگاہ میں جواب دہ ہونا ہے، جس نے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے، کبھی اُس اصل انسان کے بارے میں ہم نے جاننے کی کوشش کی؟ اگر ہم نے آج تک یہ نہیں جانا کہ اصل انسان کون ھے تو ہمیں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ اُس کی کیا ضروریات ہیں کہ جِن کو پورا کر کے ہم نے نہ صرف اِس دُنیا کی فانی زندگی میں کامیاب ہونا تھا بلکہ اصلی، ازلی اور حقیقی زندگی کو پا کر آخرت کی نا ختم ہونے والی زندگی میں بھی کامیاب ہونا تھا.

اُسی انسان ہی کو تو ایک مقصد دے کر اِس فانی دُنیا میں بھیجا گیا تھا، وہ ہی وہ انسان تھا کہ جس کو اللّٰہ پاک نے 4000 سال اپنے سامنے بِٹھا کے اپنا دیدار کروایا، اُسی انسان ہی کو تو اِس مٹی کے جسم میں ایک خاص مدت تک رہنے کے لئے داخل کیا گیا، کہ جو اُس حقیقی اِنسان کا صرف ایک لباس ھے، افسوس کہ آج تک ہم اُس لباس کی ہر ضرورت کو تو سمجھ گئے لیکن اُس لباس میں موجود اصل انسان کو اُس کے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اُسکی ضرورت کو پورا کرنا نہ سمجھ سکے، افسوس کہ اب تو نزع کا وقت بھی قریب آ پہنچا.

موت ہمارے سر پہ منڈلا رہی ھے، کاش کہ ہم اصل انسان کو پہچان جاتے، اُس کے لئے جیتے اور اُس کو اللّٰہ پاک کی طرف سے دیا گیا مقصد پورا کرواتے، وہ مقصد کہ جو ہمیں عالمِ ارواح یعنی عالمِ لاھوت میں اللّٰہ پاک کی طرف سے عطا کیا گیا تھا، وہاں ہی ہم نے اُس مقصد کو حاصل کرنے کا وعدہ کر لیا تھا کہ ہمیں جب اِس فانی دُنیا میں باری باری بھیجا جائے گا تو ہم اپنے اُس مقصد کو حاصل کر کے ہی واپس اللّٰہ پاک کے حضور جائیں گے.

تب ہی تو جب سے یہ دُنیا بنی ھے تب سے اللّٰہ پاک اُس مقصد کو یاد کروانے کے لئے اپنے خاصُ الخاص بندے یعنی انبیاء اور اولیاء کو وقفے وقفے سے اِس فانی دُنیا میں بھیجتا رہا ہے، اور ہمیں وہ مقصد یاد کروانے اور اُسے پورا کروانے کے لئے اُن پاک بندوں کو قیامت تک بھیجتا رہے گا، کہ جب تک ایک بندہ بھی اللّٰہ پاک کا نام لینے والا نہ رہے گا..
کبھی غور کِیا ھے کہ کیوں روز چاند، سورج ستارے، وقت، نماز، اور سو کر اُٹھنے کا عمل دوہرایا جا رہا ھے اور قیامت تک دوہرایا جاتا رہے گا؟ کیوں کہ ہمیں اللّٰہ پاک بار بار موقع عطا فرما رہا ھے کہ رب تعالیٰ سے کِیا ہُوا وہ وعدہ پورا کرنے یعنی اپنے اُس مقصد کو پورا کرنے کے لئے تھوڑی سی بھی کوشش اگر کوئی بندہ کرے گا تو رب تعالیٰ فوراً اُس کو اُس کے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اُسکی مدد فرمائے گا، تب ہی تو اللّٰہ پاک نے یہ فرما رکھا ھے "کہ اے بندے تُو ایک قدم چل میں دس قدم چلوں گا" کہ اُس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اگر تُو تھوڑی سی بھی کوشش کرے گا تو تیرے لئے راستہ آسان کر دُوں گا.

بس وہی مقصد پورا کرنا تھا ہمیں، ہمیں سے مراد اُس اصل انسان نے، اور وہ اصل انسان روح ھے. اور مقصد بھی ذیادہ نہیں صرف ایک ھے، اور وہ مقصد ھے معرفتِ الٰہی حاصل کرنا. معرفت یعنی پہچان کرنا، پہچان اُسی کی کی جاتی ھے جِسے پہلے کہِیں دیکھا ھو، جسے ہم نے دیکھا ہی نہ ھو اُس کو ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تمہیں پہچان لِیا، لہٰذا پہچان کرنی کِس کی ھے؟ اللّٰہ پاک کی، کیونکہ اللّٰہ پاک نے تمام ارواح کو عالمِ ارواح میں 4000 سال اپنا دیدار کروایا، تو پتہ یہ چلا کہ انسان یعنی روح کو پتہ ہے کہ اللّٰہ کون ہے اور کہاں ھے، جب روح اپنے رب کو اِس فانی دُنیا کی فانی زندگی میں اپنی (روح کی) آنکھ سے دیکھ لیتی ہے تو وہ پہچان جاتی ھے، اور پھر اپنی زبانِ دل سے کہتی ھے کہ "اشھد ان لا الہ الا اللہ"، "اشھد ان لا الہ الا اللہ".
اور پھر اللّٰہ پاک اُس روح کو اِسی فانی دُنیا میں ہی اپنے محبوب پاک ﷺ اور ہمارے آقا پاک ﷺ کی کچہری عطا فرما دیتا ھے، اور پھر جب وہ روح دِل کی آنکھ سے آقا پاک کی زیارت سے بہرہ ور ہو جاتی ھے تو دِل کی زبان جھومتے ہوئے کہہ اُٹھتی ھے کہ" واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ"، "واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ".
یعنی تب انسان مومن اور پھر عارف بن جاتا ھے.

عارف کے لفظی معنی ہیں "پہچان کر لینے والا"، وہ انسان اللّٰہ پاک کی معرفت یعنی پہچان حاصل کر لیتا ھے. یہی اِس فانی دُنیا میں آنے کا انسان کا اصل مقصدِ حیات تھا، ھے اور رہے گا.. لیکن افسوس کہ انسان اپنے مقصد کو بھول بیٹھا. جنت تو انعام ھے، اور ہم اسے حاصل کرنا مقصدِ حیات سمجھ بیٹھے. دنیا تو ہماری صرف ضرورت تھی اور ہم اِسے مقصدِ حیات سمجھ بیٹھے.

مقصدِ حیات تو صرف ایک ہی ھے، یعنی معرفتِ الٰہی حاصل کر کے اللّٰہ پاک کی مرضی سے آخری سانس تک حضور آقا پاکﷺ کی پکی سچی غلامی کرتے ہوئے زندگی گزارنا. دوسرا کلمہ شہادت ھے اور شہادت کے معنی ہیں "گواہی دینا"، کب گواہی دیں گے ہم؟ کب اس کلمے کو حق سچ کر کے دکھائیں گے ہم؟ کبھی سُنا ھے کہ کسی جج نے اندھے کی گواہی قبول کی ھو؟ تو پھر بغیر دیکھے ہن کیسے گواہی دینے کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ آخر کب ہم اپنی آنکھوں سے غفلت کے پردے ہٹائیں گے؟ کیا اللّٰہ پاک نے قرآن پاک میں یہ نہیں فرمایا؟ کہ "ہم نے لوگوں کو دل دئیے لیکن وہ اِس کی حقیقت سے بے خبر ہیں، ہم نے اِنہیں آنکھیں دِیں لیکن وہ اِس سے دیکھتے نہیں، ہم نے اِنہیں کان دئیے لیکن وہ سُنتے نہیں، ایسے لوگ جانوروں کی مِثل ہیں، بلکہ اُن سے بھی بدتر ہیں، اور وہی لوگ غافل ہیں.".

(پارہ نمر 9، آیت نمبر 178، سورۃ الاعراف)
اور کیا آپ نے وہ دو احادیثِ قدسی نہیں سُن رکِھیں؟ کہ
 "1- کُنت کنزا مخفی فاردت ان اُعرف فلقت الخلق لاعرف
ترجمہ: میں اِک چُھپا ہُوا خزانہ تھا، میری چاہت بنی کہ میں پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا تاکہ میری پہچان ھو.
آج پُوچھیے خود سے کہ کیا اللّٰہ پاک کی وہ اِک چاہت ہم نے پوری کر لی؟ وہ اِک چاہت کہ جس کو پُورا کرنے کے لئے ہم سے عہد یعنی وعدہ لیا گیا، کیا ہم نے ابھی تک اُس اِک چاہت کو پُورا کرنے کا وعدہ وفا کر لیا؟
اِسی اِک چاہت کو پُورا کرنے کے لئے اللّٰہ پاک نے ایک اور حدیث قدسی میں فرمایا کہ
 "2- اے ابنِ آدم اک تیری چاہت ھے اور اِک میری چاہت ھے، ھو گا وہی جو میری چاہت ھے، اگر تُو نے فرمانبرداری کی اُس کی جو میری چاہت ھے تو میں تُجھے وہ بھی دُوں گا جو تیری چاہت ھے، لیکن اگر تُو نے نافرمانی کی اُس کی کہ جو میری چاہت ھے تو میں تُجھے تھکا دُوں گا اس میں کہ جس میں تمھاری چاہت ھے، پھر ھو گا وہی جو میری چاہت ھے."

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :