ذرا اندر کی بات

ہفتہ 18 جنوری 2020

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

کل 17 جنوری کو ہماری آزادی کی 28 ویں برسی ہو گزری ہے جسے آپ میری شادی کی 28 ویں سالگرہ بھی کہ سکتے ہیں تاہم کل صبح کو میری بڑی بیٹی نے اس دن کے حوالے سے مبارکباد کچھ اس طرح دی Happy 28th anniversary of tolerance for each other...یعنی ایک دوسرے کو برداشت کرتے 28 برس ہوچکنے پہ مبارکباد ۔درحقیقت اس نے ایک بڑی سچائی کو بہت آسانی سے تہنیتی پیغام میں سمودیا۔۔۔ بلاشبہ یہ پیغام اس حقیقت کا عکاس ہے کہ جوڑے کبھی کبھی آسمانوں ہی میں نہیں بنتے خلاؤں میں بھی بنتے ہیں۔

۔۔ یہ الگ بات کہ ایسے کئی جوڑوں کی تو ساری عمر فرار کا پیرا شوٹ ڈھنڈھنے ہی میں گزر جاتی ہے۔۔۔ اچھا چونکہ اب اس بات سے کوئی مزید فائدہ یا نقصان ہونے والا نہیں چنانچہ بہتر ہے کہ میں یہ اعتراف کرلوں کہ میں اور میری بیگم مزاجاً اور عادتاً ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں اتنے مختلف کے ہمیں بطور مثال برتا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

۔۔ اس مختلف امزاجی کا سائز سمجھانے کے لیئے پولز اے پارٹ والی مثال تو ذرا بڑی ہوجائے گی بس ذرا چھوٹے لیول پہ لیہ سے لندن کے فرق جتنا باور کرلیجئے۔

۔۔۔ لیکن الحمدللہ جیسا کہ سارے وطن عزیز میں ہوتا چلا آرہا ہے اس پوری شوریدہ سری و تضادات سے پر ازدواجی حقائق کے باوجود ہمارے آنگن میں بھی پھول مہکے ہیں اور وہ بھی چھ۔۔۔ اس تعداد کو میں نصف درجن بھی بتاسکتا تھا کیونکہ تعداد تو وہی رہتی مگر اس سے مزید کی حسن طلب بھی جھلکتی ہے جو کہ ایک سادہ سے شماریاتی معاملے کو گھمبیر اور مشکوک بنادینے والی بات ہے۔

۔۔
 ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ کسی بڑے تنازعے اور ضابطہء فوجداری والے باضابطہ فساد کے بغیر ہی ہماری ازدواجی زندگی کی یہ تیسری دہائی مکمل ہونے کے قریب آن پہنچی ہے اب ہم دونوں میں سے یہ کس کے لیئے صبر کا مقام ہے اور کس کے لیئے شکر کا اس کا تعین دونوں جانب سے شاید کبھی منصفانہ طور پہ نہ ہوسکے گا - گو بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھ جیسے عجیب و غریب بندے کو یوں بھگت پانا بس اسی شیرنی کا حوصلہ تھا لیکن یہاں آپ مجھے بھی داد سے محروم نہ کریں کیونکہ مجھے برداشت کرنے کی اس تپسیا کے عیوض میں نے انکے جنت میں داخلے کا استحقاق بھی تو پیدا کردیا ہے۔

۔۔ مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ میں شاید معمولی بندہ سہی لیکن میرے معمولات بہت غیرمعمولی ہیں اور شاید عادات بھی جنہیں سمجھ پانے کے لیئے کوئی جوڈیشل کمیشن ہی کچھ کرپائے تو کرپائے ورنہ کسی چھوٹی موٹی سی خاندانی یا معاشرتی جے آئی ٹی کے بس کی بات نہیں اب اسی کو لے لیجیئے کہ میں پڑھنے لکھنے کی شدید ' لت' کے باعث شادی کے ایک ہفتے بعد ہی اپنا ازدواجی کمرہ چھوڑ کے دوسرے کمرے میں منتقل ہوگیا تھا اور گو کہ میرا اس ازدواجی سبیل المعروف حجلہء عروسی میں کبھی کبھار حسب ضرورت آنا جانا تو ضرور لگا رہا لیکن بیگم کے پاس بہت تفصیل سے تادیر جم کے بیٹھ پانا اور افواہوں کے تبادلیکرپانا بہت ہی کم ممکن ہوا اور یوں بہت سی داستانیں ان کہی رہ گئیں اور اسی وجہ سے ان کئی برسوں میں میری زوجہ محترمہ ایک ایسی شدید گھٹن کا شکار رہی ہیں کہ جسکی اذیت کا اندازہ کوئی برصغیر کی خاتون ہی کرسکتی ہے۔

مجھے یہاں یہ تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں کہ میری زوجہ محترمہ متعدد ایسی صفات عالیہ سے پر ہیں کہ جنکی تحسین نہ کرنا بڑی زیادتی ہوگی کیونکہ معاملہ فہمی سلیقہ اور ذمہ داری سمجھئے کہ میری بیگم پہ بس ختم ہی ہے اور رہی میری اپنی ذات تو، معاملہ فہمی اور سلیقے کی موجودگی کی مقدار بس اسی تناسب سے ہے کہ جس قدر تھر میں پانی اور وطن عزیز میں قانون کی حکمرانی وغیرہ وغیرہ۔

۔۔ میرا پکا ارادہ ہے کہ کبھی اپنی زوجہ کو تفصیل سے جان اور سمجھ سکا تو ان کے بارے میں زیادہ تفصیل سے لکھوں گا کیونکہ وہ اب بھی اکثر اپنے کسی نہ کسی نئے پہلو سے مجھے حیران کرڈالتی ہیں اور بلاشبہ اس صلاحیت سے وہ پوری طرح لبریز ہیں اور رہا میں، تو یہ عاجز تو عرصے سے ایک ایسی کھلی کتاب کی مانند ہوگیا ہے کہ مسلسل کھلا رہنے سے شاید جس کے بیشتر ورق تو پھٹ ہی گئے ہیں اور جو چند بچے کھچے رہ گئے ہیں ان کو تند ہوائیں اڑا لے جانے پہ تلی ہیں۔

۔۔۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ جب میں پہلی بار شادی کی آزمائش سے دوچار ہوا تھا (ویسے دوسری بارتو نوبت ہی نہیں آئی، لیکن پھر بھی ایسا مغالطہ پیدا کرنا بھی کتنا خوشگوار لگتا ہے۔۔۔) تو آس پاس کے ازدواجی سانحات کی روشنی میں بخوبی جانتا تھا کہ کوئی زوجہ دراصل کسی بندے کی اوقات درست طور پہ ناپنے مگر غلط طور پہ بتانے کا ایک خودکار قدرتی آلہ ہے جو کہ آ بیل مجھے مار کے اصول پہ خود ہی بڑے اہتمام سے گھر لایا جاتا ہے اور پھر یہ ہر وقت کام کرتا رہتا ہے - 
اسی حقیقت سے واقفیت ہی کا اعجاز تھا کہ کامیاب شوہروں کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے میں نے خود سے کبھی تیس مار خان بننے کی کوشش ہی نہیں کی کیونکہ اس معاملے میں کسی بیگم کی گنتی تیس مار خاں کو تیس تک نہیں بلکہ اٹھارا یا بیس تک ہی محدود رکھتی ہے اور اسی باعث 28 برس کی شادی کے بعد میرا عملی مشورہ یہ ہے کہ کسی بھی شوہر کو خواہ مخواہ کے ٹو کی چوٹی سر کرنے کا خناس ہرگز نہیں پالنا چاہیے خصوصاً جبکہ اسکی بیگم کیٹو کو بھی کٹی پہاڑی جتلانا بخوبی جانتی ہو ۔

۔ آخر میں بس یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ گو میں نے زندگی میں کافی من مانی بھی کی ہے لیکن اب شادی کے 28 برس بعد میرا کسی حد تک ذریں شمار کیئے جانے لائق قول یہ ہے کہ جس کسی کے سر میں اگر خود مختاری کا سودا سمایا ہوا ہے یا نہایت باعتماد نظر آنے کا ذوق ہے تو اسے نکاح خواں کے سائے سے بھی دور رہنا چاہیئے ورنہ تو سرمایہ انا اور متاع پندار کو بیگم کا مال مقبوضہ بنتے دیر نہیں لگتی اور دو تین برس کی ازدواجی ناکہ بندی کے بعد تو ہر نوشہ پالتو بن ہی جاتا ہے اور لاریب کہ اگر دفتر میں ناک پہ مکھی بھی نہ بیٹھنے دینے والے طرم خان و پھنے خان کے گھر میں بھی بہت رازداری و احتیاط سے جھانک کے دیکھا جاسکے تو وہ بھی بڑی فرمانبرداری سے چھٹی والے دن بیگم کے ساتھ بیٹھا لوکی کدو اور توری چھیلتا دیکھا جاسکتا ہے ۔

بوٹ
کیا فیصل واؤڈا پہ عمران خان کی معمولی سی ناراضگی ہی کافی تھی۔۔ انکی یہ ادا سوچ کو ایک اور نیا زاویہ دے رہی ہے اور اس کے اثرات و ممکنہ نتائج کیا ہوسکتے ہیں ان کا اندازہ کرنے کے لیئے یہاں سے شروع کرنا عین ضروری محسوس ہورہا ہے کہ پہلے یہ جانچا جائے کہ واؤڈا نے ایک ٹاک شو میں بوٹ لاکے میز پہ سجانے کی جو حرکت کی اسکی شدت کا درجہ کیا تھا یعنی آیا وہ کوئی بڑی لغزش تھی یا اسے بس یونہی چھوٹی موٹی سی غلطی شمار کیا جائے۔

۔۔۔ اور اس ضمن میں ابتک الیکٹرانک میڈیا سے پریس سے اور سوشل میڈیا سے جو کچھ سامنے آسکا ہے اس سے تو یہ پہلو بہت ہی نمایاں ہے کہ منفرد ہونے کیباوجود یہ کوئی معمولی غلطی ہرگز نہیں تھی کیونکہ اسکے ذریعے کچھ ملک کے جمہوری نظام سے متعلق ایسے سوالات کو زندہ کردیا گیا ہے کہ جو کچھ عرصہ اٹھنے کے بعد دب گئے تھے۔۔۔ 
اس حوالے سے سے سب بڑا سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا کوئی حکومت اس قدر بیوقوف بھی ہوسکتی ہے کہ خود اپنے لیئے مسائل کھڑے کرلے اور وہ اپوزیشن جو بڑی ہی مشکل سے جیسے تیسے اسکے ساتھ ایک مسئلے پہ اتفاق رائے کی حد تک آگئی تھی اور اس وقت حکومتی کیمپ سے اسکی زبردست تحسین ہوتی سنائی دے رہی تھی، اسے اس مسئلے سے نپٹتے ہی یوں رگیدا جائے بلکہ اس پہ یوں پلٹ کے حملہ کردیا جائے کیبظاہر حالات کے مبظاہر تو یوں لگ رہا ہے کہ اس سے محض طعنہ زنی کرکے اپوزیشن کو شرمندہ کرنا ہی مقصود نہ تھا بلکہ بوٹ والوں کو بھی بلیک میل کیا جانا مطلوب تھا کہ دیکھو ہم پہ تم نے اب اتنا دباؤ بڑھادیا ہے کہ سبھی کو نظر آنے لگا ہے اوراب ہر جانب یہ محسوس کیا جانے لگا ہے کہ یہ ملک اور اسکا سارا نظام مکمل طور پہ بوٹ کی ٹھوکر پہ ہے اور ملکی جمہوری بند و بست اور سیاست جو پہلے ہی بوٹ زدہ تھی اب مکمل طور پہ بوٹ شدہ ہو گئی ہے۔

۔۔ اور اسی لیئے ہم اب یہ دکھانے پہ مجبور ہوگئے ہیں کہ ابتک جوبوٹ میز کے نیچے سے جھلکتا تھا اب برسر میز دمکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :