عدالت نے کیا پہلے درگزر نہیں دکھائی جو اب نہیں دکھاسکتی ۔۔۔؟؟

پیر 10 جنوری 2022

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

کل خصوصی طور پہ مدینہ مسجد طارق روڈ پہنچ کر میں نے وہاں  نماز جمعہ ادا کی جو میرے دفتر سے ڈیڑھ کلومیٹر کی دوری پہ ہے ، بہت عرصے بعد ایک بہت بڑا پرجوش مجمع دیکھا ، جذبات سے لبریز ، اشتعال سے لرزتے ہوئےبپھرے ہوئے لوگ ۔۔ غرض ہر طرف وارفتگی کو موجزن پایا۔۔ وہاں لگے ایک کاؤنٹر پہ بڑی تعداد میں علاقہ مکین اک فارم بھررہے تھے جو کہ اس خصوصی مہم 'ہمیں پارک نہیں مسجد چاہیئے' میں شرکت کی علامت تھے ۔

۔۔ اور یہ بات وہاں عام طور پہ زیر گفتگو دیکھی کہ جب اہل علاقہ ہی اس مسجد کے لئے متمنی تھے تو پھر کسی اور کو کیا مسئلہ ہے ، خصوصاً دو ڈھائی کلومیٹر طویل طارق روڈ کے ایک سرے پہ رحمانیہ مسجد کے بعد دوسری طرف کی سڑک پہ اختتام تک اس مدینہ مسجد کے علاوہ اور کوئی بڑی مسجد ہے بھی تو نہیں ، جس سے طارق روڈ کے دکانداروں اورعلاقہ مکینوں کے علاوہ طارق روڈ میں شاپنگ کے لیئے آنے والے گاہکوں‌کو بھی نماز کی باجماعت ادائیگی کی سہولت مل جاتی ہے ۔

(جاری ہے)

۔۔
 جہاں تک معاملہ ہے پارک کی ضرورت کا تو دلچسپ بات یہ ہے کہ اس علاقے میں مسجد گراکرپارک بنانے کا فیصلہ دینے والی عدالت کو شاید یہی معلوم نہیں کہ مسجد سے اندر کی طرف آئیں تو چند ہی گلی دور کرچی کا دوسرا یا تیسرا بڑا پارک جھیل پارک موجود ہے کہ جس کا انتظام بڑے اچھے طریقے سے ہوتا چلا آرہا ہے اس سے آگے بڑھیں تو کچھ ہی فاصلے پہ ہل پارک بھی موجود ہے جو بلاشبہ قدیمی طور پہ سیر و تفریح کا مرکز ہے اس کے علاوہ ایک چلڈرن پارک الگ سے بھی ہے اور یقیناً اندر کی گلیوں میں کئی اور چھوٹے موٹے پارک بھی موجود ہیں ، اور ویسے بھی اس مالدار یا پوش علاقے۔

کے ہر ہر گھر میں کئی کئی گاڑیاں ہیں‌ جو ان پہ سوار ہو کے منٹوں میں کسی بھی پارک یا تفریحی مقام پہ پہنچ سکتے ہیں-
جہاں تک بات ہے قبضے کی زمین کی ، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں کئی مساجد قبضہ کرکے بھی بنائی گئی ہیں اور اگر ایک مسجد گرائی گئی تو ایسی ساری مسجدوں کو بھی گرانا پڑے گا جو کہ قطعی ناممکن امر ہے کیونکہ یہ تعداد اچھی خاصی بڑی ہے ، لیکن یہاں میں یہ ہرگز نہیں کہ رہا کہ اس صورتحال کی روک تھام نہ کی جائے ، ضرور کی جائے ۔

۔۔ البتہ کیا یہ جائے کہ ایسی ثابت شدہ مقبوض زمینوں‌پہ بنی مساجد کو محکمہء اوقاف اپنی تحویل میں لے لے اور قابضین کو انکی وہاں‌سے ہونے والی مالی منفعت اور وہاں بنی رہائش گاہوں کی سہولت سے محروم کرکے بیدخل کر دیا جائے اور آئندہ کے لئے ضلعی ڈپٹی کمشنروں اور ایس پی کے ذریعے ایس ایچ اوز کو پابند کردیا جائے کہ وہ ایسا کوئی قبضہ نہ ہونے دیں ----
مدینہ مسجد انتظامیہ کا وہاں‌کی زمین پہ کی گئی تعمیر کے حوالے سے مؤقف یہ ہے کہ اس کی باقاعدہ مجاز محکموں‌سے منظوری لے کر ہی اسے تعمیر کیا ہے جس کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں اور یہی نہیں اس مسجد کی تعمیر بھی طارق روڈ کے دکانداروں‌کے عطیات اور عوامی چندے سے کی گئی ہے جس کے لئے اگر اہل علاقہ کی مرضی نہ ہوتی تو وہ اس قدر کثیر فنڈز کیوں‌فراہم کرتے- اس مسجد کے حؤالے سے لبرل حلقے بھی موقع غنیمت جان کر قانون کی سربلندی کا پھریرا لہراتے دیکھے اور سنے جارہے ہیں‌جو پتا نہیں‌اس وقت کیوں منہ میں گھنگھنیاں ڈال کے بیٹھ رہے تھے کہ جب عمران خان کی بنی گالا والی وسیع و عریض رہائشگاہ کے قنانونی طور پہ ریگولرائز نہ ہونے کا کیس سامنے آیا تھا مگر جس پہ عدالت عظمیٰ نے 12 لاکھ جرمانہ ادا کرنے کی شرط پہ درگزر سے کام لینا پسند فرمایا تھا اور اس کا یہی طرز عمل پشاور کی حیات ریزیڈینسی کے معاملے میں بھی دیکھنے میں آیا تھا اور اسی سے ملتا جلتا معاملہ جنرل مشرف کے اسلام آباد میں چک شہزاد کی اراضی کا بھی تھا ۔

۔
دور کیوں‌جائیں ، بحریہ کراچی کا معاملہ ابھی کل ہی کی بات ہے ۔۔۔ کہ جہاں ملک ریاض نے زرداری سے ساز باز کرکے بلحاظ قیمت اس وقت کے دوہزار ارب سے زائد مالیت کی 1700 ایکڑ زمین اپنی تحویل میں‌ لے لی ہے اور جو سراسر  دھونس اور رشوت کے بل پہ اور محض پونے پانچ ارب روپے کی برائے نام قیمت پہ ہتھیائی گئی ہے اور جہاں‌پہ اب بحریہ ٹاؤن کی وی آئی پی بستی بسائی جاچکی ہے ۔

۔ جب یہاں ہوئی دھاندی عدالت عظمیٰ کے علم میں آئی تو عدالت عظمیٰ نے ملک ریاض سے مذاکرات اور مجھوتہ کرواکے صرف 460 ارب کی ادائیگی کے وعدے پہ یہ کیس نپٹا دیا ، واضح رہے کہ ملک ریاض کو یہ رقم بھی 7 برس میں قسطوں‌میں دینی ہے یعنی انکے اس سے یہ طے کئے گئے 460 ارب بھی سرکار کے خزانے میں اس وقت آئیں گے کہ جب یہ زمین سات آٹھ ہزار ارب کی ہوچکی ہوگی- سوال یہ ہے کہ اس قسم کی درگزر کا بھی کیا کوئی جواز موجود تھا اور یوںریاست کا مالی مفاد اور  شرعی، قانونی اور اخلاقی اصؤل اشک بہاتے اور دہائیاں دیتے رہ گئے
اسلامی مملکت کے شہری ششدر ہیں کہ اوپر بیان کردہ 'سلسلہ ہائے درگزر' کی اس قدر طویل تاریخ کے باوجود  مدینہ مسجد کے کیس میں‌ عدالت عظمیٰ کے پاس درگزر کا کوئی درگزر نہیں‌ جبکہ بہت واضح ہے کہ اگر حکومت چاہے تو علاقے کے 4-5 مکان خرید کر انہیں مسمار کرکے بھی وہاں مجؤزہ پارک بنایا جاسکتا ہے ۔

۔۔ بلکہ اگر اس بارے میں حکومت کوئی عندیہ ظاہرکرے اورعوام سے مالی معاونت طلب کرے تو شاید اس متبادل منصوبے کو باآسانی مکمل بھی کیا جاسکے- گویا اگر نیت مثبت ہو تو اس مسئلے کا حل خوش اسلوبی سے نکل سکتا ہے ورنہ اس صورتحال کو جو سراسر مذہبی رنگ لئے ہوئے ہے اور جس پہ جذبات بھڑکانا سب سے آسان کام بھی ہے تو اس صورتحل کو بگڑنے سے بچاپانا ہر صؤرت ضروری ہے ورنہ اسے کسی فساد اور بلوے میں بدلنے سے روکنا قطعی ممکن نہیں‌رہے گا اور بڑے خون خرابے کے بعد بھی نوشتہء دیوار یہ ہے کہ ہونا یہی ہے کہ بالآخر ریاست کو یہاں‌سے پسپا ہونا پڑے گا ، تو پھر جو کام بڑی خونریزی و بہت بدامنی کے بعد ہونا ہے وہ اس کے بغیر اور پہلے ہی کیوں‌نہ کرلیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :