ان کی مرتی سیاست کو پھر لاشوں اور تماشوں‌کی ضروت ہے۔۔۔

جمعہ 28 جنوری 2022

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

ہوشیار خبردار متحدہ کی مرتی ہوئی ہوئی سیاست کواب  چند لاشیں درکار ہیں ، آج گریں یا کل ، تیاری ہے پوری اورمکمل ۔۔۔۔
کون ہے جو نہیں‌ جانتا کہ الطافی اسکول کے بھاگے ہوئے یہ بچے نکلنے سے پہلے وہاں سے مکاری و سیاپے کے اہم سبق پوی طرح یاد کرچکے تھے ۔۔۔۔ جب پاس پّلے سرے سے کوئی کارگزاری نہ ہو اور حکومت سے ہر قیمت پہ چمٹے رہنے کے سوا مغزمیں اور کوئی ہوشیاری نہ ہو تو پھر جذبات بھڑکانے اور چند لاشیں پھڑکانے اور پھر آنسو بہانے کے سوا کوئی اور ہتھکنڈہ بچتا بھی تو نہیں ہے ۔

۔۔۔ ورنہ کیا لوگ حساب نہیں مانگ لیں گے کہ دنیا کے بڑے شہروں میں‌شامل اس مظلوم بستی سے یہ کھلی غداری کیوں‌ کی اور اس کوآدھے سے بھی کم گننے والی مردم شماری کو قبول کرنے کی عیاری اور کوٹہ سسٹم میں‌ توسیع کی تائید کی مکاری کیسے ہوئی ۔

(جاری ہے)

۔۔۔ بلاشبہ یہ سیاسی کردار کی پستی کی بدترین مثال ہے جو چند ارزل ذاتی مفادات کی تکمیل کی قیمت پہ کی گئی ۔

۔۔۔ اور جس کا جواب انہیں دیتے بنے گا بھی نہیں اور جس کی یہ ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے ۔۔ کیونکہ جس اسکول سے یہ پڑھے ہیں‌ وہاں‌ مسائل کا حل نہ کرنا ہی بہترین حکمت عملی بتایا جاتا ہے کہ اگر سیدھے سبھاؤ مسئلے حل ہوگئے تو پھر ہمارے در کے چکر بھلا پھر کون لگائے گا ۔۔۔!
حیف، میرا  شہر پہلے پاگل ہوا اور پھر یتیم ۔۔ بڑے عرصے سے متعصبانہ رویوں‌اور محرومیوں‌کا نشانہ بنتے چلے آرہے عروس البلاد میں‌ 70 کی دہائی کے وسط  ہی سے سندھ کے شہری علاقے کو ایک نجات دہندہ کی ضرورت جب اپنے عروج پہ پہنچی تو الطاف نامی ایک موقع پرست ابھرا جس نے پہلے لسانی لڑائی کی فضاء بنائی اور پھر اس سے اپنے طبقے میں عدم تحفظ‌ کا احساس پیدا کرکے بندوق کے نظارے کراکے دماغ پاگل کئے اور پھر ان پاگلوں‌ میں اپنے لئے بطور محافظ جگہ بنانے میں زبردست کامرانی پائی اور جو مخالف ہوتا نظر آیا اس کی زندگی کی پتنگ کی ڈؤر ہی کاٹ دی ، اسی خوف ہراس کے چلتے لابریریاں خالی اور قبرستان آباد ہوتے چلے گئے اور یوں‌ دیکھتے ہی دیکھتے دو نسلوں کی تعلیم و تہذیب نگل لی گئی کہ یہی وہ دو چیزیں ہیں کہ جو سوچ بیدار رکھتی ہیں اور اندھی اطاعت سے دور کرتی ہیں‌ ۔

۔۔ مزید کمال یہ کہ قیادت و جوانمردی کے معنی ہی بدل دیئے اور یہ انہونی بھی ہوئی کہ اس کے لاکھوں چاہنے والے انہیں ریاست کے طاقتور چیرہ دستوں‌کے سامنے چھوڑ کر لندن جابیٹھنے والے بزدل کے فرار کا دفاع بھی کرتے رہے اور اپنے کاروبار اور روزگار کو بلکہ وہاں‌کام کرنے والوں‌تک کو خاکستر کرڈالنے والے بھتہ گیروں اور قاتلوں‌کو کندھوں‌ پہ لادکے اسمبلیوں‌ میں بھی پہنچاتے رہے ۔

۔۔ اس شارع وحشت پہ سفر اس قدر تیز ہوا کہ 22 اگست کی زہریلی تقریر کا موڑ آکے رہا اور کھال بچانے کے آرزو مندوں کی قطاریں‌ لگ گئیں‌ ۔۔۔
اب مرحلہ آن پہنچا تھا خود انحصاری کے پاجامے سے شہر کو نجات دے کر اسے پکی یتیمی کا کچھا پہنادینے کا ۔۔۔  فاعل و مفعول کہیں ا عامل و معمول، دونوں‌ہی کی ضرورت پوری ہوئی ۔۔۔ دونوں‌ ہی آلودہ تھے ۔۔۔  انہیں‌ گنگا نہانا تھی اور کٹھ پتلی نچانے کے عادیوں‌ کو اپنی مرضی کا میلہ رچانا تھا ۔

۔۔  آزمودہ سیاسی بازیگر بہرحال جانے مانے سیاسی کرتب بازوں‌ کی ضرورت تھے اس لئے سب سے پہلے انہیں‌کئی ٹکڑیوں‌ میں بانٹا گیا تاکہ عند الطلب سر جھکا کر بس کرتب ہی دکھائیں‌ اور پھر محض دم ہلانے اور الگ الگ رکھے گئے راتب چاٹنے ہی کو مقصد وحید مان لیں‌۔۔۔۔ مگر اس بات کو بہرحال لازمی بنایا گیا کہ یہ غلطی سے بھی مقصدیت کی عبا نہ لاد لیں‌ ۔

۔۔ البتہ کبھی کبھار عوام میں‌ اپنا بھرم رکھنے کا ہنر ضرور زیر استعمال لاتے رہیں‌ ۔۔۔ اس لئے روزگار اور تعلیم کی ضرورت کی بہ نسبت شہر میں‌ ٹرانسپورٹ کی دستیابی ، کچرے کی صفائی اور پانی کی آسان رسائی کے مدے ہی کو اکسیر باور کیا گیا۔۔۔ تاہم بڑے اپھارے کے اندیشے پہ سندھ میں‌ نئے صؤبے کے چورن کی پھکی اکسیر مانی گئی ۔۔۔ اسی لئے کبھی مدہم اورکبھی تیز سروں اور دباری راگ راگنیوں میں یہ الگ صوبے کی فرمائشی تان لگتی رہتی ہے ۔

۔ لیکن اس سے یہ قطعی غرض نہیں‌ کہ واقعی الگ صوبہ دینا حقیقی طاقتوروں‌ کی منشاء ہے ۔۔۔۔
یہ بازیگر لکن چھپی کا یہ کھیل یونہی مزید جاری رکھتے مگر جماعت اسلامی سندھ اسمبلی پہ ظالمانہ بلدیاتی قوانین کے خلاف دھرنا دے کریہ سب کھیل ہی بکھیڑا کردیا ۔۔۔۔ جو کام شہر بھر سے الغاروں ووٹ سمیٹ لینے والے ان گرو گھنٹالوں‌ کا تھا اور جو مطالبے انہیں کرنے بنتے تھے  وہ جماعت نے کردیئے ۔

۔ نہ صرف مطالبے بلکہ ایک ماہ سے بھرپور دھرنا بھی جاری و ساری ہے ۔۔۔ شہر کے میئر کی طاقت کا مرکز اس کے اختیارات ہوا کرتے ہیں‌ ۔۔ یہ البیلے گرو ایک ایک کرکے یہ اختیارات بھی ٹھنڈے پیٹوں‌چھنواتے گئے اور اہم شہری ادارے بھی ہاتھ سے جاتے دیکھا کئے ۔۔ مگر اب جماعت اسلامی کی سرگرمیوں پہ گھبرا چلے ہیں‌ اور  بوکھلا کے ریلی ریلی کھیلنے کی سرگرانی میں‌ ہیں‌ تاکہ پگڑی بھلے گرجائے مگر اس کا شملہ سر پہ رہے ۔۔۔ ظاہر ہے کہ یہ شعبدہ ناممکن ہے ۔۔۔ سو اب بہتر ہے کہ برائے کفارہ اپنے پیٹ کا اپھارہ چھوڑ ، جماعت کی پشت پہ کھڑے ہوجائیں کہ شاید اسی ایک عمل سے انکی بدعنوانیوں غفلتوں‌اور آپسی لڑائیوں‌ کے ہاتھوں لگے زخموں‌سے چور کراچی کو بارے کچھ تو راحت میسر آجائے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :