بجی ہیں خطرے کی گھنٹیاں نون لیگ سے زیادہ پی ٹی آئی کے لئے

بدھ 8 دسمبر 2021

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

لگتا یوں‌ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو وقتی طور پہ ایک پیج پہ لانے کا تہیہ کرلیا ہے اوربعد میں اس پیج کا پورا رجسٹرہی بلال ہاؤس میں پہنچایا جاسکتا ہے- اس طرز فکر کی یوں تو متعدد جھلکیاں پہلے بھی موجود تھیں لیکن اس بار این اے 133 لاہور کے ضمنی انتخابی نتائج اس 'چلن' کے بھرپور غماز ہیں کیونکہ واضح طور پہ پی ٹی آئی کے ووٹر سے پیپلزپارٹی کو ووٹ دلوا کر زبردستی ہوشیار بنائے گئے بلاول اور اسکے جینیوئن ڈیڑھ ہوشیار پپا کوانکی اس محنت کا کچھ نہ کچھ صلہ بہرحال دے دیا گیا ہے کہ جو وہ اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پہ بظاہر اپوزیشن کا حامی بن کےاسکی کشتی میں متعدد سوراخ کرنے کی صورت انجام دیتے چلے آرہے ہیں  ۔

۔۔  
کل کے الیکشن کا اجمالی سا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ این اے 133 میں مسلم لیگ نون نے بظاہر تو ضمنی الیکشن کا میدان مار لیا ہے لیکن یہاں ہوئے اس الیکشن میں مجموعی طور پہ صرف ساڑھے 18 فیصد ہی ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں جو کہ یہاں جنرل الیکشن میں پڑے 51 فیصد ووٹوں‌سے صرف ایک تہائی کے لگ بھگ ہیں‌ اور دو تہائی افراد نے اس عمل سے دور رہ کر گھر بیٹھنےہی کو ترجیح دی -  اس کم ٹرن آؤٹ کا خاصا اثر گو کہ ہر جماعت کے ووٹوں کی تعداد میں بخوبی جھلک بھی رہا ہے لیکن یہ حقیقت بڑی کھل کے سامنے آگئی ہے کہ نون لیگ کے ووٹوں کا ٹرن آؤٹ اس تناسب سے عین مطابق کم نہیں‌ہوا یعنی متناسب لحاظ سے اسے بھی دو تہائی کم ہونا چاہیئے تھا مگر یہ اس سے 16 فیصد بہتر ہے ۔

(جاری ہے)

۔۔ جبکہ اصل چھلانگ تو پیپلز پارٹی نے لگائی ہے  جس نے 27 ہزار ووٹوں‌کا جمپ لیا ہےاسےابکے ماضی کے ساڑھے 5 ہزار کے مقابلے میں 32 ہزار ووٹ پڑے ہیں مگراسے یہ لڈو بیٹھے بٹھائے ہی مل گیا ہے کیونکہ تحریک انصاف کے بائیکاٹ کی صورت ہی رچایا جانا ممکن ہوا ہے کیونکہ  تحریک انصاف نے اس بار کے الیکشن میں اپنے امیدوار کے کاغذات مسترد ہونے کے باعث الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا تھا اور ووٹروں سے گھر سے نہ نکلنے کی اپیل کی تھی  وہ اس سے قبل ہوئے جنرل الیکشن میں یہاں‌سے 77 ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر پہ رہی تھی - ابکے اس کی عدم موجودگی میں یہاں پپیلز پارٹی دوسرے نمبر پہ رہی ہے
جو بھی ہو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں‌اسے اس حق محنت کاصلہ بہرطور دیدیا  گیا لیکن یہ جیت کی منزل سے دور اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ ڈسکہ کے الیکشن کی کہانی پرانی نہیں ہوئی اورعدالت اور الیکشن کمیشن کے ایوانوں میں وہاں ہوئے مسکوٹ کی ہنڈیا جس طرح پھوٹی ہے ، اسٹیبلشمنٹ کا وہ زخم ابھی تک رس رہا ہے اور ایسے میں رسک لیا جانا ممکن نہیں تھا خصوصاً جبکہ یہ معاملہ ساؤتھ پنجاب کے بجائے سینٹرل پنجاب کے حلقے کا تھا جہاں پیپلز پارٹی کا کوئی بڑا کردار باقی نہیں رہ گیا ہے اور جہاں پہ وہ سیاسی و انتخابی میدانوں میں مسلسل کئی بار سے بری طرح پٹتی چلی آرہی ہے اور وہ بھی لاہور جیسے شہر میں کہ جو نون لیگ کا گڑھ کل بھی تھا اور اب بھی ہے ۔

۔۔ کل کے الیکشن سے البتہ نون لیگ ہی نہیں پی ٹی آئی کے لئے بھی خطرے کی گھنٹیاں بج گئی ہیں کیونکہ پاکستانی جمہوریت کی تقویت کی اساس  صرف اس ایک محاورے پہ رکھی ہوئی ہے " جسے پیا چاہے وہی سہاگن " اور یہاں تو سہاگن بھی ایسی ہے کہ    اقتدار ملنے کے ایک اشارے کی آس پہ لوٹن کبوتر بننے کو کب سے مری چلی جارہی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :