چشمہء فیض اب سوکھے نہ تو اور کیا کرے ۔۔؟؟

ہفتہ 6 مارچ 2021

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

4 مارچ آیا اور گزر گیا مگر جاتے جاتے اپنی طرف سے  مجھے ایک برس اور پرانا بھی کرگیا ۔۔۔ "اپنی طرف سے کا جملہ" یوں کہا کہ خواہ اس سے میری عمر کی گنتی میں ایک برس جڑ بھی گیا ہے تو کیا ہوا ۔۔ میرے ولولے تو اب بھی تواں ہیں جواں اس لیئے نہیں کہا کیونکہ لوگ ایسے جملے کی طاقت کی بنیادوں میں ویاگرا سونگھنے لگتے ہیں اور یوں معاملہ جذبے کی سرشاری کا نہیں ناآسودہ جذبوں کی خواری کا بن جاتا ہے - یہاں ویاگرا کا لفظ محض مجبوری میں استعمال کیا ہے تاکہ معلومات عامہ خصوصاً جدید طبی معلومات سے میری واقفیت کے بارے میں کوئی مغالطے میں نہ رہے االبتہ اس بارے میں طریقہء استعمال اور نتائج و مابعد اثرات  کے بارے میں استفسار کی جسارت ہرگز نہ کرے کیونکہ اس تفصیل کی راہ میں پردہ نشینوں کے نام بالکل بھی نہیں آتے
کچھ لوگوں کے بارے میں کچھ لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ پیدا نہیں ایجاد ہوئے ہیں ۔

(جاری ہے)

۔ چند مردم ناشناسوں کا اس عاجز کے بارے میں بھی یہی خیال ہے ۔۔۔ گو میں انکے اس خیال کو غلط ثابت کرنے کے لیئے چوکسی سے کام لینے کی بھرپور کوششیں بھی کرتا ہوں  مگر یہ چوکسی کبھی مطلوب مقدار سے کم تو کبھی زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہوجاتی ہے اور یوں اپنی بابت اس مفسد نظریئے کی تدفین تاحال نہیں کی جاسکی ہے۔۔۔ میں اس دنیا میں آنے کے بعد سے اس سوال کا جواب تلاش کررہا ہوں کہ مجھے کیوں پیدا کیا گیا کیونکہ اب جبکہ عمر کی نقدی خاتے کے قریب آن پہنچی ہے مجھے پوری طرح سے احساس ہوگیا ہے کہ میرے ہونے سے سوائے چند بچے ہونے کے تاحال کہیں بھی کوئی بھی فرق نہیں پڑسکا ہے تھوڑا بہت فرق البتہ روز دسترخوان پہ ضرور پڑتا ہوگا ۔

۔۔
پس یوں سمجھیئے کہ دنیا کے سارے چھوٹے بڑے کام اپنے آپ یونہی ہوئے چلے جارہے ہیں اور کبھی کسی کام کے لیئے مجھ سے مشورہ تک نہیں مانگا جاتا اجازت لینا تو دور کی بات ہے  حالانکہ ہرکسی سے ہمہ وقت سینگ پھنسانے اور ہر کام میں ٹانگ اڑانے  بلکہ بیک وقت دونوں ٹانگیں اڑانے کا جو بے پناہ جذبہ میرے اندر موجزن ہے الفاظ اسکے بیاں سے عاجز ہیں ۔

۔۔ جہانتک مشورے و رائے کا معاملہ ہے وہ بھی مشورہ لینے والے  کی طاقت و برداشت کے اندر بلکہ بہت اندر ہی ہوتی ہے اور حسب اوقات و حسب ذوق ہواکرتی ہے لیکن پھر بھی لوگ نجانے کیوں اجتناب کرتے ہیں حالانکہ انکی بنیاد پہ محض چھ سات بار رسوائی اٹھانے سے میری فہم کی نسبت مشکوک ہوجانا سراسر ذیادتی ہے اور ان چند  بدقسمت واقعات کی بناء پہ کسی عمومی کلیئے کو تراش لینا چنداں مناسب نہیں ۔

۔  تاہم جبتک میں برسر زمین موجود ہوں ، مجھ سے استفادے کے سارے امکانات بھی سلامت ہیں۔۔۔۔    تاہم میری مایوسی اب دن بڑھتی جارہی ہے کیونکہ یہ بدقسمت دنیا اس چشمہء فیض سے منہ موڑے بیٹھی ہے اور اسے محض چند آوارہ پرندوں اور کچھ ناآسودہ بھٹکی ہوئی بھیڑ بکریوں کی تشنگی مٹانے ہی کے لئے وقف کر چھوڑا ہے جبکہ میری بیتاب آنکھیں اب بھی روز ہرنیوں کے غول  اور مرغابیوں کے جھنڈ کی آس میں پوری پوری کھلی رہتی ہیں ۔۔۔۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :