سفر انسان

پیر 24 اگست 2020

Syed Fahad Hussain Shah Husaini

سید فہد حسین شاہ حسینی

یہ جو میرا چلنا تم کو نظر آ رہا ہے یہ دراصل قدم اٹھانا
 اور قدم رکھنا ہے تیری نظر میں۔ تم بس یہی سمجھ  رہے ہو کہ یہ قدموں کو زمین سے اٹھانا اور رکھنا ہے. مگر کیا یھی چلنا ہوا؟؟؟
نہیں یار یے چلنا نہیں یے سفر ہے منزلوں کی جانب، یے صدیوں کا سفر ہے جو میں طے کرتا ہوا آیا  ہوں میرے  قدم اُس زمین کے بوسے لے رہیں جس پر کبھی عزازیل نے سجدے کیے ہیں لیکن میری منزل مجھ سے روز بہ روز اور دور ہوتی جارہی ہے۔

آؤ کے تمہیں آغاز سفر بتاؤں  میں جب اس منزل کی تلاش میں عالم ارواح سے جہاں وہ کن کہتا گیا اور ہوتا گیا سورج چاند رات دن پہاڑ صحرا  سمندر جن و ملائکہ عرش و فرش بنتے گئے لیکن وہ کون ہوتا جو احسن تقویم کہلاتا؟؟ "وہ میں ہوں فقط میں"  واحد مجھے ناز و انداز سے بنایا بڑے چاہ سے بنایا تخلیق کا پیکر اٹھاتا ھزار تخلیقات میں افضل ترین۔

(جاری ہے)

میرا  خیال اتنا کے میرے تخلیق ہونے سے پہلے میرے لیے جنت بنائی اور سجائی اس میں  کوثر تھا تو ساقئ کوثر بھی جہاں رنگ تھے جہاں خوشبُو تھی جہاں یاقوت و مرجان سے جھڑے مکان تھے جہاں مور سے خوبصورت پرندے جنکی آواز کوئل سے خوبصورت تھی جہاں انار تھے شہد و دودھ کی نہریں تھیں جہاں بادل نہیں تھے جہاں آکاش نہیں تھا مگر پھر بھی حسن تھا جمال تھا جہاں کوئی غم نہیں تھا سکون ہی سکون تھا ھر جگہ۔

میں مکیں لا مکاں کے ٹھکانے کا تھا۔ مگر اشرف جو ثابت کرنا تھا مجھے اس لیے مجھے منزل کی تلاشِ کی جستجو اندر ڈال کر بھیجنا چاہا اپنا نائب بنا کر اور اس طرح کے انتظامات کیے جیسے معراج کے لیے تیار کرکے بھیجا جا رہا ہوں براق کو ساتھ بھیجنا اس سفر میں میری توہین سمجھی گئی کہ میں اشرف ہوں سفر تنہا کروں۔ یوں لگ رہا تھا کہ کائنات کا وہ دولہا ہوں جس کو شاید نہ پہلے کبھی  ایسے اعزاز سے نوازا گیا نا ہی کبھی نوازا جائیگا ایک ایسی محفل سجائی گئی جس پر کائنات نے رشق کیا تمام ملائکہ کو حاضر کیا اور پھر اُن معصوموں نے سجدے کیے لیکن دور ایک سایہ تھا جس نے نہ سجدہ کیا نہ ہی خوش ہوا لیکن رخصت ہوتے وقت بس وہی یاد رہا کے وہ اتنا اُداس کیوں تھا لگ کچھ یوں رہا تھا کے وہ اندر ہی اندر ماتم کر رہا ہو بس وہ یاد رہ گیا۔

جب منزل کی جانب پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو قابیل نے خون سے رنگ دیا مجھے، پھر یے سلسلہ چلتا رہا منزل دور بھاگتی رہی مجھ سے میں کبھی دنیا کی سب سے بڑی کشتی بنانے لگا اور بھاگتا تھا منزل کی جانب کبھی نارِ نمرود میں تپسیا کرتا رہا کبھی مصر کی بازار میں بولی لگی تو کبھی بھائیوں نے کنوے میں پھینک دیا  کبھی منزل نا ملنے پر یعقوب بنکر روتا رہا کبھی مچھلی کے پیٹ میں چھپتا رہا کبھی جو جلال آیا تو طور پر چڑھ کر بولا کے یے سب گورکھ دھندہ ہے کیوں مجھے منزل کی تلاش کی جستجو دی یوں رُلایا ؟؟
 تو آواز قدرت آئی کبھی عشق کر تو پتہ چلے تُجھے، کبھی اُلفت و آرزو میں جل تو پتہ چلے کبھی تلاش یار میں مارا مارا تشنہ لب مجنوں بن کے نکل تو پتہ چلے جب اس نے کہہ دیا تو کبھی علی بن کر بھی توک و رسن میں سر خم کردیا کبھی محبوب ربانی ہوتے ہوئے بھی طائف میں پتھر کھائے مگر اُو نہ کی کبھی بلال ہوکر بھی گائے کی کھال میں سلا کبھی ابوذر ہوکر بھی ٹھوکریں کھائی کبھی حسن ہوکر بھی زہر پی لیا کبھی حسین ہوکر بھی تلاشِ منزل میں ارض نینوا پر تپتے صحرا میں سر یار پر صدقہ کردیئے کبی اصغر تو کبھی قاسم بن کر تو کبھی اکبر بن کے نوک نیزاں پر سر کے بل عشق میں رقصاں ہوئے۔

  یے سفر ہے منزل کی جانب مگر منزل بیوفائی کرتی رہی مگر ہار نا مانی میں کبھی مجنوں بن گیا کبھی سسئی بن کے پہاڑوں میں تجھے ڈھونڈا کبھی بیجل بن کے اپنا ہی سر اپنے ہاتھ سے جدا کرکے تیرے عشق میں سرخرو ہونا چاہا کبھی شمس طبریز بن کے اپنی ہی کھال اُتار دی تو کبھی منصور ہوکر سوری چڑھ گیا کبھی مخدوم بلاول ہوکر پس گیا مگر منزل ہے کے ملنے کا نام ہی نہیں لیتی سفر ہے کے مکمل ہی نہیں ہوتا میں تڑپ رہا ہوں آج بھی افریقہ میں، میں آج بھی سسک رہا ہوں شام میں یمن میں تھر میں۔

میں کبھی عصمت کو بچانے میں کبھی بھوک مٹانے میں کبھی وقار کے ساتھ جینے کی خاطر آزادی کی جنگ میں تو کبھی انصاف کے حصول کی جنگ میں ہر پل عشق کی منزل کی طرف راغب ہوں بتا تو صحیح آخر وہ وعدہ اب تیرا کب وفا ہوگا کب ملیگی منزل کب یہ تیرا نائب تیری نظر میں سرخرو ہوگا؟ کیا ہے منزل بھی لامکاں ہوگئی کیا اب یہ گورکھ دہندہ سرِ محشر تک رہیگا کیا اب روزِ محشر ہی منزل کو ملاؤگے؟ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :