ویری گڑ میلہ

جمعہ 1 جنوری 2021

Syed Qamar Bukhari

سید قمر بخاری

لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ داماد اور کماد دونوں اونچے لمبے ہونے چاہئیں لیکن یہ خواہشیں ضروری نہیں کہ پوری ہو سکیں۔ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم علوم زراعت کی برصغیر پاک و ہند میں پہلی دانش گاہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے وابستہ ہیں لہٰذا ہمیں کماد کی ہر قسم کی ورائٹی دیکھنے کو ملتی ہے۔ بھلا ہو ایگری ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کا جو گزشتہ چار سال سے دیہی ثقافت کے خوبصورت رنگوں اور مٹھاس سے سجے ہوئے گڑ میلے کا اہتمام کرتی چلی آ رہی ہے۔

اسی قسم کا گڑمیلہ گزشتہ روز چاولہ فارم چک نمبر113گ۔ب جڑانوالہ روڈ فیصل آباد میں منعقد کیا گیا۔ ڈاکٹر شہزاد بسرا جو کہ طارق تنویر کے ساتھ مل کر ایگری ٹورازم کو فروغ دے رہے ہیں انہوں نے مجھے اور ممتاز مزاحیہ شاعر احمد سعید کو اس میلے کی دعوت دی اور ہم صبح تیار ہو کر ان کے ساتھ میلے کے لئے روانہ ہو گئے۔

(جاری ہے)

گوگل میپ آن تھا لہٰذا محترمہ گوگل اپنی خوبصورت آواز میں راستہ بتاتی چلی جا رہی تھی اور ہم اس کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلتے ہوئے مطلوبہ مقام کی طرف رواں دواں تھے۔

راستے میں ایک جیپ نے ہمیں رکنے کا اشارہ کیا۔ ذرا سا توقف کر کے ان سے پوچھا کہ آپ کو کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہے؟ تو جانگلی لہجے میں اگلی نشست پر بیٹھے ہوئے صاحب نے پوچھا ”بھائی جان یہ چاولاں والا فارم کس پاسے ہے؟“۔ ہم نے انہیں بتایا کہ غالبا آپ چاولہ فارم کا پوچھ رہے ہیں جہاں گڑمیلہ منعقد کیا جارہا ہے ۔ تھوڑا دور گئے تو موٹرسائیکل پر سوار دو نوجوانوں نے جو کہ دور دراز سے آئے ہوئے محسوس ہوئے انہوں نے ہم سے گاڑی روک کر کچھ اس طرح کا سوال کیا کہ" بھائی جی چاہ والا فارم کس طرف ہے؟۔

" وہ دونوں اچھی خاصی فارم میں نظر آ رہے تھے اور مونچھوں کو بار بار تاؤ دے رہے تھے۔ انہیں بھی چاولہ فارم پر جانا تھا۔ موٹرسائیکل اور گاڑی سوار کو ہم نے اپنے پیچھے آنے کا کہا اور ہم میلے کے قریب پہنچے تو سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں پارک نظر آئیں۔ اس بار میرے ساتھ ہمارے دوست فوٹوگرافر ملک سیف اللہ زاہد جو  زہد و تقویٰ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ان کے علاوہ ممتاز ویڈیو پروڈیوسر، کیمرہ مین، ایڈیٹر نواز انصاری بھی  ہمراہ تھے کیونکہ ہم نے سوچ رکھا تھا کہ اس بار گڑمیلے پر ہلکے پھلکے انداز سے وی لاگ بنایا جائے۔

میں نے مائیک سنبھالا جبکہ سیف اللہ زاہد نے وہاں پر پڑے ہوئے گنوں کے انبار کو سنبھالنا شروع کر دیا۔ انہوں نے اس قدر خوبصورتی سے  چوسائی کا آغاز کیا کہ ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔ ان کے اس انہماک کو دیکھ کر کیمرہ مین کو میں نے بلا لیا۔ سیف اللہ زاہد اس وقت گنا توڑ رہے تھے، میں نے پوچھا کہ ملک صاحب ٹوٹے ہوئے گنے کو آپ دوبارہ کیوں توڑ رہے ہیں؟ تو مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ" یہ کام اس لئے کر رہا ہوں، کہیں میلے والے یہ نہ کہیں کہ آپ نے یہاں آ کر کیا توڑ لیا ہے“۔

اس کے بعد شہزاد بسرا کے ہمراہ گڑبنانے کے مختلف مراحل پر بات چیت کی۔ انہوں نے رس نکلنے سے لے کر گڑ بننے تک کے تمام مراحل سے ہمیں آگاہ کیا۔ مجھے رہ رہ کر یاد آتا رہا کہ سب سے زیادہ رس تو ہماری گھریلو خواتین نکالتی ہیں کیونکہ صبح ناشتے میں بیکری سے آئے ہوئے رس نکال کر سب کے ہاتھوں پر رکھتی ہیں۔ شہزاد بسرا نے میل نکالنے کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ کن کن چیزوں سے میل اتاری جا سکتی ہے جسے ہم میل پریکٹس بھی کہہ سکتے ہیں۔

احمد سعید سے بات چیت کا آغاز ہوا تو انہوں نے بتایا کہ گڑ کے تین فائدے ہیں جو انہیں فی الحال بھول چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ محاورہ بالکل غلط ہے کہ ”توں ایہہ کی گڑ گڑ لائی ہوئی اے“۔ انہوں نے گڑ کے بارے میں شاعرانہ مزاح بھی پیش کیا۔ ان کا یہ شعر سب نے بہت پسند کیا
تیرے اگے بیہہ کے پیتی۔۔۔۔ چاہ مکی پر چس نہ جاوے
کہتے ہیں جہاں گڑ ہو وہاں مکھیاں بھی ہوتی ہیں۔

لہٰذا احتیاطاً ہم کچھ مکھیاں اپنے ساتھ گاڑی میں لے کر گئے۔ میں نے اکثر گڑ کی بوریوں والے ٹرکوں پر مکھیوں کو ”گڑ سواری“ بھی کرتے دیکھا ہے۔ وہاں خواتین اور بچے بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے۔ ایک بچے سے جب میں نے دریافت کیا کہ گڑ کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں تو وہ کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا، میں نے اس کی شرمندگی کو چھپانے کے لئے ایک اور سوال کر دیا کہ اگر بہت زیادہ گڑ پڑا ہو تو اسے انگریزی میں کیا کہیں گے؟ اس نے فوراً جواب دیا ”ویری گڑ“۔

ایک خاتون جو کہ گنے کے پڑے ہوئے ڈھیر میں مختلف گنے الگ الگ کر رہی تھیں ان سے میں نے پوچھا کہ یہ جو آپ نے مختلف گنے الگ کئے ہیں ان کو کیا کہیں گے تو ہنس کر بولیں ”کئی گنا“۔ وہاں میوے والا گڑ تیار ہو رہا تھا جس میں ہر قسم کے میوہ جات ڈالے گئے تھے اور لوگ تازہ گڑ کھا کر اپنے پیٹ کی گڑ گڑ ختم کر رہے تھے وہاں ہمیں یہ بھی ادراک ہوا کہ حقہ پیتے ہوئے گڑ گڑ کی آواز کیوں آتی ہے؟ کیونکہ حقے کی گڑگڑاہٹ میں تمباکو کے اندر ملے ہوئے گڑ کا کمال ہوتا ہے۔

اکثر ”چیڑ“ یعنی رس سے بننے والی ”پت“ جو کہ گوند نما ہوتی ہے اس میں گنے کو ڈبو کر چوسا جائے تو بڑے بڑے بولنے والوں کی بولتی بند  ہوجاتی ہے۔ ایسی ہی ایک باتونی خاتون وہاں خاموش نظر آئیں، ان کی فیملی پریشان تھی کہ آخر کیا ہوا کہ آج محترمہ خاموشی اپنائے ہوئے ہیں  تو پتہ چلا کہ محترمہ کے ہونٹوں کو ”چیڑ“ لگ گئی ہے۔ وہاں پت کا حشر دیکھ کر احساس ہوا کہ لوگوں کی پت کیسے رولی جاتی ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ کماد نہ ہوتا تو نہ ہمارے آس پاس گیدڑ ہوتے اور نہ ہی گیدڑ بھبھکیاں سننے کو ملتیں ۔ گڑ میلہ مٹھاس سے بھرا ایک خوبصورت ایونٹ تھا جو کہ شبیر حسین چاولہ اور ساجد سندھو کے فارم پر منعقد کیا گیا جس میں خالد محمود شوق پورے ذوق اور شوق کے ساتھ مصروف دکھائی دیئے۔ یہاں ساگ، مکئی کی روٹی، مکھن اور لسی کے ساتھ مہمانوں کی تواضع کی گئی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :