فنِ تجرید‎

ہفتہ 28 نومبر 2020

Tasmeer Bakht

تثمیر بخت

جب سے میں نے تمہیں دیکھنا،تم پر غور کرنا شروع کر دیا تب سے
سب چاہنے والوں کے،اذیت دینے والوں کے،جو سہارا بنے اور جو چل دیے
سب کے نقوش تیکھے خواہ پھیکے۔۔۔
غزالی آنکھیں،گورے رنگ،گلابی ہونٹ
چھوٹی آنکھیں،موٹے ناک،سانولے رنگ اور بھدے ہونٹ
سب ایک دوسرے میں مدغم ہونے لگے ہیں
غصیل نظریں،سکوڑے ہونٹ،سلوٹوں بھرے ماتھے اور جھاگ اڑاتے چلاتے ہوئے منہ
شفیق نگاہیں،شیریں مقال ہونٹ،پر سکون نورانی ماتھے اور پھول جھڑتے منہ
میں ان سب رویوں اور مزاجوں میں امتزاج اور تفریق کرنا بھولنے لگا ہوں۔


جیسے سب چہرے کانوس پہ تازہ پگھلے رنگ ہیں اور ان پر کوئی ہاتھ پھیر کر سب آپس میں گڈ مڈ کر گیا۔
رنگوں کی تفریق اور امتزاج ختم ہو کر تجریدی فن(Abstract art) کا ایک نمونہ بن گیا ہے اور جیسے حیرت کے مہ کدے میں کوئی مہ وش بنا پلک جھپکے اس سب کو جذب کرنے کی تگ و دو میں لگا ہے۔

(جاری ہے)


اسی طرح ان سب نمونوں میں ایک جلوہ اور رنگ نمایاں ہونے لگا ہے
میں ان سب نمونوں کے ماتھے پر صرف تمہارا ہی نام دیکھتا ہوں،سب رویوں میں تجھے ہی جلوہ گر پاتا ہوں.
میں رویوں،چہروں اور لوگوں کے جذبات کے تغیر و تبدل سے دنگ اور دل گرفتہ ہونے والا شخص اب اس فنی شاہکار کو حیرت،خوشی،خوف اور تجسس ملے جذبات سے دیکھتا کسی سحر میں مبتلا ہو چکا ہوں
مجھے لوگ اچھے یا برے نہیں صرف رنگین لگنے لگے ہیں۔


مجھے اب تجریدی فن سمجھ آنے لگا ہے یا شاید میری آنکھیں خراب ہو چکی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :