پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی ناکامی

پیر 31 مارچ 2014

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

صوبہ ہزارہ قراردادکی خیبرپختونخوا اسمبلی سے منظوری پر ہزارہ میں جشن، بابا نے رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے حکمران جماعت تحریک انصاف کو مشکل میں پھنسا دیا۔ صوبہ ہزارہ کی قرارداد کی منظوری پر خوشی کے شادیانے بجانے والے ہزارہ کے ممبران اسمبلی کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ہزارہ کے ممبران اسمبلی نے بلدیاتی انتخابات سے قبل صوبہ ہزارہ کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ن لیگ کو پھنسانے کی کوشش کی لیکن ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ان کی یہ تدبیر الٹ ہو کر ان کے لئے مسائل کا باعث بن جائے گی۔

سردار ادریس کی طرف سے صوبائی اسمبلی میں صوبہ ہزارہ کے قیام کیلئے پیش کردہ قرارداد پی ٹی آئی نے جیسے تیسے منظور کرکے یہ شوتو کر دیا کہ ہم نے عوام سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دیا۔

(جاری ہے)

اب صوبہ ہزارہ قرارداد کو قومی اسمبلی سے منظور کرا کر مسلم لیگ ن اپنا وعدہ پورا کر دے۔ لیکن تحریک صوبہ ہزارہ کے قائد بابا سردار حیدر زمان نے وقت سے پہلے پی ٹی آئی کے اس کارنامے کا بھانڈہ پھوڑتے ہوئے نہ صرف سردار ادریس، مشتاق احمد غنی، قلندر لودھی اور اکبر ایوب خان بلکہ پوری تحریک انصاف کیلئے مشکلات کا سامان فراہم کردیا۔

پی ٹی آئی کے ممبران نے مسلم لیگ ن کے خلاف جو چال چلی وہ واقعی بڑی زبردست تھی۔ کیونکہ خیبرپختونخوا اسمبلی سے صوبہ ہزارہ کی جو قرارداد منظور کرائی گئی ہے اس پوزیشن میں قومی اسمبلی سے اس کا منظور ہونا ممکن نہیں۔ بابا اگر یہ بھانڈہ نہ پھوڑتے تو کل کو جب یہ قرارداد نیشنل اسمبلی سے واپس ہوتی تو پی ٹی آئی والے سر اٹھا کر یہ کہتے کہ دیکھو ہم نے تو قرارداد منظور کرکے آگے بھیجی لیکن ن لیگ کی حکومت نے ہزارہ دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے وہ واپس کر دی۔

لیکن بابا نے پی ٹی آئی ممبران کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے یہ منصوبہ ہی ناکام بنا دیا۔ صوبہ ہزارہ قرارداد کی صوبائی اسمبلی سے منظوری کے بعد جب تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی ہزارہ پہنچ کر جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ عین انہی لمحات میں بابا سردار حیدر زمان نے میڈیا پر اس قرارداد کو ٹوپی ڈرامہ قرار دیتے ہوئے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔

بابا حیدر زمان نے موٴقف اختیار کیا کہ صوبہ ہزارہ کے قیام کیلئے جو قرارداد پی ٹی آئی نے کے پی کے اسمبلی سے منظور کروائی ہے اس میں اتنی جان نہیں کہ اس کے بل بوتے پر صوبہ ہزارہ کا قیام عمل میں آسکے۔ کیونکہ صوبہ ہزارہ سمیت ملک کے کسی بھی حصے میں نئے انتظامی یونٹس کے قیام کے لئے آئین میں ترمیم کرنی ہوگی اور آئین میں ترمیم کیلئے اس قسم کی قرارداد کا صوبائی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے منظور ہونا ضروری ہے جبکہ پی ٹی آئی نے صوبہ ہزارہ کی قرارداد صوبائی اسمبلی سے بھاری اکثریت سے منظور نہیں کرائی۔

بابا کے اس انکشاف نے پی ٹی آئی کے صفوں میں تھرتھراہٹ مچاتے ہوئے ہزارہ کے ممبران اسمبلی کے ہوش اڑا دیئے اور اسی وجہ سے تحریک انصاف کے ممبران نے مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر اپنی توپوں کا رخ بابا کی طرف موڑ دیا۔ اپریل آتے ہی ہزارہ میں صوبہ ہزارہ کے نام پر سیاست کا بازار ایک مرتبہ پھر گرم ہو گیا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بارہ اپریل تک مزید گرم ہوتا جائے گا۔

کون صوبہ ہزارہ کے قیام میں مخلص ہے اور کون نہیں۔۔؟ یہ تو روز اول سے ہی کوئی راز نہیں رہاہے اور یہی وجہ ہے کہ صوبہ ہزارہ کے نعرے لگانے والے سیاستدانوں کے مقابلے میں بابا کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہزارہ کے عوام آج بھی بابا سردار حیدر زمان کو اپنا لیڈر قرار دیتے ہوئے صوبہ ہزارہ کے قیام کیلئے بابا کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔

پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے اقتدار میں ہونے کے باوجود صوبہ ہزارہ کے مسئلے پر لوگوں کو ان دونوں جماعتوں سے توقعات کم اور بابا سے امیدیں زیادہ ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق عام انتخابات میں تحریک صوبہ ہزارہ کی ناکامی کے بعد صوبہ ہزارہ کا قیام اب ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ کیونکہ جس نے صوبہ ہزارہ بناناتھاوہ اقتدارتک پہنچے نہیں اورجوپہنچے ہیں وہ اب ہزارہ کے سادہ لوح عوام کو صرف صوبہ ہزارہ کالالی پاپ دے کرسیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

شائدانہی حقائق کی روشنی میں باشعورلوگ حکمران جماعت کی طرف سے صوبائی اسمبلی سے صوبہ ہزارہ قرارداد کی منظوری کو تحریک انصاف کی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔ بہرحال پی ٹی آئی کی اس قرارداد کو دوتہائی اکثریت کی بجائے عجلت میں منظور کرانے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں۔۔۔۔۔؟ اس بارے میں حتمی طور پرابھی تو کچھ کہنابھی یقیناً قبل از وقت ہے کیونکہ ان حقائق پر فی الحال گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود چھٹ جائیں گے۔

لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس قرارداد نے ہزارہ کے ممبران اسمبلی سمیت پوری پی ٹی آئی کو مشکل میں لا کھڑا کر دیاہے ۔ اس قرارداد کو صوبہ ہزارہ کے اہم مدعی بابا حیدر زمان کی طرف سے ٹوپی ڈرامہ قرار دینے کے باعث اب حکمران جماعت کی صوبہ کے لئے جدوجہد اور کردار پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں جس کے پی ٹی آئی کے مستقبل پر یقیناً منفی اثرات مرتب ہونگے۔

تحریک انصاف کے ممبران نے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔ یہ قرارداد پی ٹی آئی کے پاس ن لیگ سمیت دوسری سیاسی جماعتوں کو زیر کرنے اور ہزارہ کے عوام کے دل جیتنے کے لئے ایک بہت بڑا اور اہم ہتھیار تھا جسے سیاسی نابلوغت کے باعث ضائع کر دیا گیا۔ اسی قرارداد کو اگر وزن اور موقع محل کے ساتھ منظور کیا جاتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ہزارہ ن لیگ کے بعد تحریک انصاف کا گڑھ نہ بنتا۔ مگر افسوس کہ پی ٹی آئی ممبران نے دوسروں کیلئے گڑھا کھودتے کھودتے آخر خود ہی اس میں چھلانگ لگا دی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :