نیا سال ۔۔۔نیا وعدہ

اتوار 5 جنوری 2014

Usama Khamis Minhas

اُسامہ خامس منہاس

روزِازل سے لیکر آج تک سال آتے اور جاتے ہیں۔اِنسان ہر سال بلکہ ہر دن ایک نیا سبق سیکھتا اور نیا وعدہ کر ڈالتا ہے ،مگر عمل کچھ ہی قلندر صفت انسان کرتے ہیں۔اِس کائنات کی سب سے اچھی چیز بھی انسان ہے اور سب سے بُری چیز بھی انسان ہے۔انسان کی خواہشات کادائرہ کار انتہائی وسیع ہے جسکا لیول کبھی پورا نہیں ہو پاتا۔اِسی وجہ سے ہی وُہ اپنے نفس کا غلام کہلاتا ہے۔اصل میں جس نے اپنی خواہشات اور ذہن کو فتح کیا اصل میں قلندر وہی کہلایا۔انسان نے علم و فنون ،جنگ وخشت ،آسمان و میدان کو تو برابر فتح کیا مگر اگر فتح نہ کر پایا تو وُہ اُس کا قول اور اُسکااپنا ذہن ہے۔آج کا انسان ترقی کی انتہا کو چُھو گیا ہے اور علم و فن کی انتہا کو پا چکا ہے مگر اِس سب کے بعد بھی حر ص کا دامن پُر نہیں ہوتا۔وُہ جو بچپن سے بوڑھاپے تک علم کی کوکھ میں تربیت لیتے رہے وہی آجکل لالچ کی بلند سٹیج پر براجمان ہیں ۔

(جاری ہے)

وُہ وقت بھی تو تھا جب مسلمانوں کی جماعت کو اِن ٹائم کھانا ملتا تھا اور وُہ اُس پر صبر کرتے اور کھا کر شکر کرتے تھے ،وُہ جانتے تھے کہ جس ذاتِ پاک نے اُن کے لیے اِس وقت کے لنگر کا انتظام کیا ہے وُہ اگلے وقت کے لنگر کا انتظام بھی رکھتا ہے،مگر وجہ کیا تھی عقیدہ وایمان تھااورتب حرص ناپید تھا ۔تب ایسی جدید تعلیم نہ تھی مگر سلوک کے پہاڑ قائم تھے ،انسانیت سوزی نہیں تھی ہاں مگر انسانیت سے محبت کا دور دورہ تھا۔اہل علم کو یاد ہے نہ وُہ واقع کہ جس جماعت نے رزق کو جمع کرنے کی کوشش کی تو پھر اُس کا کیا حشر ہوا۔یہی کچھ آج کے انسان کا حال ہے کہ وُہ طرح طرح سے سب جمع کرنے میں لگاہے ،وجہ اِس مادی دورکا وجود ہے ۔محبت ،امن ،بھائی چارے کو اِس مادیت پرستی نے چاٹ کر رکھ دیا ہے۔وُہ پُرانے لوگ آج اُس اچھے دور کی تلاش کرتے ہیں ،مگر نااُمید ہوتے ہیں۔یہ ترقی کبھی رُکے گی نہیں بلکہ یہ اور زیادہ ہوگی کہ جہاں انسان کے پاس ورائٹیوں کے انبار لگ جائیں گے اور انسان کو اپنا غلام بنا لیں گے۔ اگر کوئی شخص آج کسی دوسرے کا بھلا کردے یعنی دُنیاوی مال و جاہ میں کسی قسم کا فائدہ کر دے تو دوسرا اُس کا مُرید بن جاتاہے ،اور اُسے جہاں تک ہو پائے نوازتا ہے مگر اُس کواِس کے پیچھے مالک الملک ذات نظر نہیں آتی جسکی وجہ سے سامان ِآسائش اُس کا مقدر بنا۔وُہ بھول جاتا ہے کہ مجھے جتنا زیادہ مل رہا ہے اُتنا ہی مجھ سے اِس کا حساب لیا جائے گا۔مسلمان ہوتے ہوئے حالت یہ ہے کہ نماز روزہ ،حج اورزکوة کا نام بھی سننا بُرا لگتا ہے ،جواب دیا جاتا ہے کہ پہلے باقی فرائض تو ادا کر لیں۔اصل فرض اور وعدہ سے روگردانی ہی کی وجہ سے آج اُمت مسلمہ کی جڑیں کھوکھلیں ہو گئیں ہیں ۔دُنیاو جہاں میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں اور مسلمانوں کو رُسوا کیا جا رہا ہے۔ہر جانب غیر مسلموں کی فتح کے ڈنکے بجتے سُنائی دیتے ہیں ۔مسلمان کو آج وعدہ خلاف اور کرپٹ انسان کا درجہ دیا جا رہا ہے۔امن کا پیامبر آج انسانیت کا دُشمن بنا بیٹھاہے او ر اپنے فائدے کے لیے کئی خاندانوں کی زندگیاں اُجارنا مسلمانوں کا شیعوہ بن چکا ہے ۔میرٹ مفقود ہو کر رہ گیا ہے۔گھروں کے چولہے آج کے جدید دور میں بجھ گے ہیں۔پانی نہیں ،بجلی نہیں،گیس نہیں ،روزگار نہیں ،امن نہیں اور پھر زندگی بھی نہیں ۔تب امن تھاجب کوئی بندوق ،گولہ ،رائفل ،ڈورن طیارے اور ٹینک نہیں تھے مگر آج اِس سے بھی آگے کا سامان کیاجا رہا ہے ۔عصمت ریزی کا بازارسرعام لگایا جا تا ہے اور عصمتوں کی نیلامی ایوانوں کا شغل ٹھہرتا ہے ۔مسلمانوں نے اسلامی قانون کے ہوتے ہوئے سڑکو ں اور چوراہوں پر ڈاکہ زنی عام کر رکھی ہے ۔خلیفہ ِوقت کمان سنبھاتے ہی رعایا کا حق غصب کر نا شروع کر دیتا ہے ،اپنے خزانے رعایا کی محنت کے پیسوں سے بھرتا ہے اور رعایا کو جھوٹے سیاہ اور بے پَر خواب دیکھاتا ہے ۔اسلامی جمہوریہ آج اندھیری سٹیٹ کے نام سے جانی جا رہی ہے ۔دوسرے ممالک بھی اِب تو اِس ریاست کو دھرا دھڑ لوٹ کھا رہے ہیں،کچھ لوگ حیران بھی ہیں کہ پھر 67سالوں سے یہ ملک کیسے چل رہا ہے ابھی تک تباہ اور مکمل منقسم کیوں نہیں ہو رہا تو پھر سُنیے یہ ملک لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کے نام پہ قائم ہوا تھا اور ہے اور اِس کی بنیادوں میں میرے بابا حضر ت قائد اعظم کا خون ہے ،خان لیاقت علی خان صاحب و شہداء اسلام و وطن کا خون ہے توپھر یہ کیسے تباہ ہو سکتا ہے ۔آج پھر مالک ِکائنات نے ہمیں وقت دیا ہے ،ایک اور نیا سال ٹھنڈی ٹھنڈ ی صبح کے ساتھ طلوع ہوا ہے مگر ہمیں اِس بار پرانی غلطیاں نہیں دُہرانی چاہئیں،وُہ غلطیاں جس سے ہمارا فائدہ اور قوم واسلام کا نقصان ہو ۔ہمیں قرآن وسنت نماز ،روزہ ،حج اور زکوةکو عام کرنا ہوگا۔والدین کا احترام ،انسانیت سے پیار اور دوسروں کے حقو ق کی حفاظت کرنی ہے۔استاد کو استاد ،مزدور کو محنت کش ،ڈاکٹر کو خدمت گزار اور خلیفہ کو رعایا کا اصل نوکر بننا ہوگا۔یہ وُہ منشور ہے جس پر عمل کرکے ہم خود مختار قوم و ملک کہلائیں گے ۔یہ وُہ وعدہ ہے جو ہمارے باباحضرت قائد اعظم کی روح کو آسودگی بخشے گا ،یہ وُ ہ وعدہ ہے جس سے میرے وطن کے جانبازوں اور جانثاروں کی عظمت اور اُن سے وفا اور اظہار ہو گا۔آئیے اِس دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں اور نئے سال پر نیا وعدہ کر کے اِس ارض پاک کو ارض مقدس اور ارض پُرامن بناتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :