سیاسی صورتحال اور کورونا

جمعرات 23 اپریل 2020

Usama Khamis Minhas

اُسامہ خامس منہاس

کورونا کی وجہ سے پاکستانی کیا پوری دُنیا کی عوام شدید قرب کا شکار ہے۔آج اس وائرس کا شکار کوئی اسلم دُکان والا نہیں بلکہ وزیراعظم برطانیہ بورس جانسن بھی ہیں،اِس وباء سے تو کوئی خاص کوئی عام محفوظ نہیں۔آج ہر کوئی اپنی جان کی امان رب سے مانگ رہا ہے،پاکستان میں روزانہ رات کے دس بجے لوگ اپنی اپنی چھتوں پر اذانیں دے رہے ہیں۔ایک بات یہاں کہنا چاہتا ہوں 8 مارچ کوخواتین کا عالمی دن تھا تو اُس سے پہلے ہی ٹی وی شوز پہ روزانہ” میرا جسم میری مرضی “کے عنوان پہ لفظی جنگ ہوا کرتی تھی۔

باشعور لوگ تب بھی سمجھتے تھے کہ سب کچھ رب کا ہے یہ روح بھی ،جسم بھی ،گویا کہ کائنات کی ہر چیز۔۔۔
اب دیکھیں نہ یہ وائرس آیا تو ہم سب شکارِ پابندی خود ہوگئے ہیں۔یہاں شیریں زبان کے حا مل شاعر پروفیسر عامر یوسف منہاس کا شعر یاد آ گیا کہ ’لوگ کیا ہیں ستم گراں عامر ،،،مل کے بھی فاصلے سے ملتے ہیں‘۔

(جاری ہے)

کیا جائز لکھا ہے یہی صورتحال ہمارے ملک میں چل رہی ہے ۔

ہر ملک ہر ہر شہر لاک ہو کر رہ گیاہے۔اور لوگ رب سے رہائی کی دُعائیں مانگ رہے ہیں اور تو اور وُہ خواتین بھی جو کہتی تھی میرا جسم میری مرضی وُہ بھی رب العالمین سے دُعا مانگ رہی ہیں کہ یا رب ہماری اِس وباء سے جان چھڑا دیں۔تو پھر یاد رکھیں سب اللہ پاک کا ہے اور رہے گا۔کرونا کے ساتھ ساتھ ملکی سیاسی صورتحال بھی خراب ہے۔چینی اور آٹے پہ آنے والی رپورٹس نے سیاسی زلزرے کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔

چینی کی قیمتوں کا آسمان کو چھونا اورمصنوعی قلت کا ہونا امراءِ وقت کا کیا دھرا تھا اور ہوتا بھی یہی ہے کہ ملک کے اُمراء عوام کی محنت کا بڑا حصہ کھا جاتے ہیں۔ جو تحقیقاتی کمیشن وزیراعظم نے بنایا اُس کی مکمل رپورٹ ابھی آنا باقی ہے۔
 عوام اس بات کی منتظر ہے کہ وزیراعظم ایسا ایکشن لیں جسے آنے والی نسلیں یاد کریں۔اور عمران خان صاحب نے بھی ذمہ داروں کے خلاف ایکشن کا کہا ہے۔

اس رپورٹ میں دو مین کردار ہیں جن میں سے بھی ایک کردار زیادہ اہم بتایا جاتا ہے اور وہ جہانگیر ترین ہیں۔۔بتایا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم کے پرنسل سیکرٹری کے ذریعے ترین صاحب کی سیاسی مداخلت ختم کروائی گئی مزید یہ کہ ترین صاحب کو سیاسی گٹھ جوڑ سے بھی باہر کیا گیا اور رہی سہی کسر واجد ضیا کی رپورٹ نے نکال دی۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ چھاپے اور آڈٹ جہانگیر ترین کی ملوں کا ہو رہا ہے یعنی جنہوں نے ایک ارب کی سبسڈی لی اُس کا آڈٹ ہو رہا مگر24 ارب لینے والوں کا نہیں، جن میں پنجاب کے چوہدری ہیں خسرو بختیار کے بھائی ہیں اورجن میں شریف فیملی بھی آتی ہے۔

یہاں حالات بتا رہے ہیں کہ جہانگیر ترین کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔یہاں یہ بات کرنا اور اِس کا کریڈٹ لینا بھی غلط ہوگا کہ حکوت یہ کہے کہ ہم نے تاریخ میں پہلی بار شوگر مافیا کو نیلام کیاہے اور اُس کے خلاف ایکشن لے رہے ہیں۔
ارے بھئی ایکشن تو آپ صرف فرد واحد کے خلاف لے رہے ہیں۔نہ آپ نے شریفوں کی ملوں کوچھیڑا، نہ مخدوموں کو، نہ مونس الہی کو اور نشان عبرت بنانے کی باتیں صرف اُس کے خلاف کر رہے ہیں جو منظور نظر نہیں رہا کبھی یہ انسان آپ کے سر کا تاج تھا۔

اصولی سیاست کو تو آپ نے تب ہی دفن کر دیا تھا جب آپ نے جسٹس وجہیہ الدین کی رپورٹ سے انکار کیا تھا۔اصول زندہ رہتے ہیں صدیوں بعد بھی انسان اپنے اصول سے جانا جاتا ہے مگر افسوس کہ آپ سیاسی مصلحت کے شکار ہو جاتے ہیں۔یہ حکومت کیا چیز ہے آپ سر تو اُٹھائیے آپ کپتان ہیں ڈرتے کیوں ہیں۔مگر کیا کریں یہ بازی جان کی بازی ہے۔اس پر مزید بات پھر ہوگی ابھی مکمل رپورٹ آنا بھی باقی ہے اور دیکھتے ہیں مزید حالات کیا کروٹ لیتے ہیں۔

گزشتہ روز سوشل میڈیا پہ علاقہ بجوات کے ہسپتال کے میڈیکل آفیسر کی ویڈیو دیکھی جس میں انہوں نے عوام سے شکوہ کیا ہے کہ ہم یہاں عوام کے علاج کے لیے خود کو رسک پر رکھ کے بیٹھے ہیں مگر اگر یہاں کوئی کورونا کا مریض آ جائے تو ہمارے پاس ہمارے بچاو کے لیے پرسنل پروٹیکٹیو ایکیوپمنٹ نہیں ہے۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ میرے پاس یہ ایک ماسک ہے جو انتہائی ناقص ہے جس میں سے باآسانی جراثیم کا گزر ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب نیشنل میڈیا نیوز چینلز کی نیوز ہے کہ پنجاب سندھ اور بلوچستان میں100 ڈاکٹر اور طبی عملہ کرونا کا شکار ہو چکا ہے۔اور پورے ملک سے ابھی تک یہی خبریں آ رہی ہیں کہ ڈاکٹرز کو تو ابھی تک احتیاطی سامان ہی مہیا نہیں کیا گیا۔سوال یہ ہے کہ جو کرونا کی امداد آئی ہے وہ کس مقصد پہ خرچ کرنی ہے آپ نے؟وُہ عوام کے لیے ہے اُسے عوام پہ خرچ کریں۔ڈاکٹرز اس وقت فرنٹ لائن پہ کرونا سے لڑ رہے ہیں لہذا اُن کو جہاں تک ہو سکے سہولت دی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :