
جنسی جرائم میں اضافہ ایکشن کا منتظر
منگل 8 اپریل 2014

اُسامہ خامس منہاس
(جاری ہے)
رونا مختلف طریقوں سے رویا جاتا ہے ضروری نہیں کے واویلا ہی رونا ہو گا۔
دیکھئے جنسی جرائم کس قدر بڑھ گئے ہیں روزانہ ایک آدھ خوف ناک خبر دل کے گرد گھیرا ڈال رہی ہے۔ہاں جی وہی بات جو عوام کرتی ہے جو بھلے مانس اور سیانے اپنی محفلوں میں کرتے ہیں کہ قانون کہا ں ہے جی وہی قانون سے تو میں بھی پوچھنا چاہتاہوں کہ خدارا اِن جرائم کے مرتکب کو انجام تک کیوں نہیں پہنچایا جاتا ؟وزیر اعلی صاحب کیوں اِس حالت میں ایمرجنسی کا نفاذ نہیں کرتے یعنی اِس صورت میں ملوث افراد اور مجرمان کو سزا کیوں نہیں دیتے ،دیر کس بات کی ہے ۔بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے وہی میری بیٹی ہے وہی میاں نواز شریف کی بیٹی تو پھر انکار کیسا؟قانون موجود ہے آئین بھی انتظامیہ بھی پھر اِس دیر کا جواز نہیں جناب جہاں سزا ہو وہاں گناہ نہیں ہوتے ۔ہر چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے تو یہ گناہ جس خوف ناک حد تک معصوم کلیوں کو مسل ر ہا ہے یہ ایک قیامت برپا کر دے گا جسے اُس حالت میں کنٹرول کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔ معاشرے کی یہ بے راہ روی میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہماری مشترکہ غلطیاں ہیں جب مغربی ہی بننا ہے تو ثقافتی لبادہ اُڑھنا چھوڑ دو اور میرا خیال ہے کہ اپنی مغرب پرستی کو اپنے گھر تک رکھا جائے جس میں احتیاط کی جائے کہ وُہ مغربییت اُوچھل اُوچھل باہر نہ آئے تاکہ دوسرے لوگ جنہیں ابھی تک پاکستانیت کی سمجھ نہیں وُہ کہیں اِس ولایتی کلچر کو ہی نہ اپنا بیٹھیں او ریہ ایک حقیت ہے کہ وُہ کسی صورت بھی خود پہ یہ لوگو نہیں کر پائیں گے کیونکہ یہاں یہی تو ہو رہا ہے کہ ہم ایک وقت میں کئی طرح کے کلچر کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔افسوس یہ کہ کہیں یہ گناہ بابا ئے قوم کے در پہ ہوتا ہے کہیں ہوٹلز کہیں سکول کہیں یونیورسٹی کہیں مسجد کہیں بازاروں اور پھر کہیں تفریح گاہوں میں ۔ہم سمجھ کا مظاہرہ کریں تو یہ جرائم کا موسم ختم ہو سکتا ہے اگر ہم خود کو اسلام کے اصولوں کے مطابق ڈھال لیں اور اپنی ذمہ داری کو سمجھیں ۔اگر آج ہم ایسا جرم کریں گے تو کل کو ہماری اولادیں بھی ایسی شرم ناک جرم کی مُرتکب ہونگی۔حیاء ایسی خوب صورتی ہے جو پردے کا دوسرا نام ہے اور ویسے بھی پردے میں رب راضی رہتاہے تو پردہ بنائے رکھنا معاشرے کی عظمت کا نشان ٹھہرتا ہے ۔آج کس بیماری کا علاج ممکن نہیں ہر علاج آپکے در پہ موجود ہے مگر ضرورت نفس کی دوا کرنے کی ہے ۔آج انسان ایک ہی وقت میں خود کو بیچ بھی رہا ہے اور کسی دوسرے کو خرید بھی رہا ہے یہ سلسلہ قانون بھی توڑ رہا ہے اور مذہب کی پامالی بھی کر رہاہے۔اِسکا جواب انسان کو دو جگہ پہ دینا ہوتا ہے ایک اِسی دنیا میں اور دوسرا روزِمحشر یعنی جہاں معافی کی گنجائش نہ ہو گی ۔ہر شخص دوسرے کا استاد ہوتا ہے اگر وُہ کسی کو اچھا سیکھائے مگر اِس سے قبل تبدیلی خود سے شروع کرے۔سزا کا نظام اِس وقت پاکستان کی اہم ضرورت ہے جو یہاں دی نہیں جاتی ورنہ جرم کبھی ختم نہ ہوگا۔علاوہ ازیں ایک مستند حل یہ بھی ہے کہ ہم اِس بُرائی کو خود بھی ختم کریں اوراِس میں والدین ،علماء ،میڈیااور استادوں کی مددبھی لے جائے جو ایک طاقت ور ہتھیار ہے ۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
اُسامہ خامس منہاس کے کالمز
-
سیاسی صورتحال اور کورونا
جمعرات 23 اپریل 2020
-
جنسی جرائم میں اضافہ ایکشن کا منتظر
منگل 8 اپریل 2014
-
مذاکرات میں فوج کا کردار
جمعرات 20 مارچ 2014
-
درالحکومت چیخ رہا ہے
بدھ 12 مارچ 2014
-
عدلیہ کا وقار
اتوار 2 مارچ 2014
-
کامیاب پاکستان
جمعرات 27 فروری 2014
-
نیا سال ۔۔۔نیا وعدہ
اتوار 5 جنوری 2014
-
لوٹ مار کا خاتمہ۔۔۔اصل خوشحالی کی علامت
بدھ 20 نومبر 2013
اُسامہ خامس منہاس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.