کامیاب پاکستان

جمعرات 27 فروری 2014

Usama Khamis Minhas

اُسامہ خامس منہاس

نہ اُمید نہیں ہوتا میں اپنے وطن کے عروج کے حوالہ سے کیونکہ میں یہ سمجھتاہوں کہ یہ مملکت خداداد ہے عظیم ہستیوں کی آرام گاہ ہے مقدس دھرتی ہے لہذا اِس کو زوال نہ ہوگا ۔یعنی یہ وُہ عظیم دھرتی ہے جسکی کوکھ نے بڑے بڑے دلیر و با وفا سپوت پیدا کیے وُہ ایک الگ بات ہے کہ حکمرانِ ملک اِس مٹی کی تعظیم کا خیال نہیں رکھ رہے ۔آج پاکستان کا ہر شہری خواہ و پڑھا لکھا ہویا اَن پڑھ بس پاکستان کی بد تعریفی کرتا پایا جاتا ہے ۔

اصل وجہ یہ ہے کہ ہم خود غلط ہیں نہ منظم ہیں ،خود کوپکڑنے کی بجائے دوسروں کو پکڑنے میں لگے رہتے ہیں ۔کہتے ہیں شروعات کا آغاز اعلی درجے سے ہونا چاہیے سوال یہ ہے کہ اگراعلی درجے پہ تبدیلی 66 سال نہ ہوتو ہم بھی اور66سال اِس پاک ارض کی تباہی میں ملوث رہیں گے؟افسو س اور شرم کی بات ہے کہ ہم مُردہ ہو چکے ہیں،مادیت پرستی میں حد درجہ گِر گئے ہیں شاعر کہتا ہے ”کسی کا ہونے میں کیا مزہ آتا ہے ۔

(جاری ہے)

۔۔ضمیر بیچ کر نیکوں میں شمار نہیں کیا جاتا“ ۔جسکے منہ کو دولت لگ جاتی ہے وُ ہ خود کو بادشاہ سلطان سلیمان سمجھنے لگ جاتا ہے ۔ایک بات عرض کرتا جاوں کہ ساتھیوں اگر دولت نام ،عزت ،مال وجاہ سے ہی تکبر آتا ہے اور ضرورت ٹھہرتا ہے تو غور فرمائیے یہ تکبر پھر میرے آقا حضرت محمدمصطفی ﷺمیں نہ آ یا جو سردارِکائنات ہیں کہ جن کے لیے کائنات کی تخلیق ممکن ہوئی ۔

مگر ہم میں یہ جھوٹی شان کیسی جوضرر دیتی ہے ۔ایک بات یاد رکھی جائے کہ بجا ہے کہ تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ شعور انسان کو تعلیم دیتا ہے جہا ں شعور نہ ہو وہاں تعلیم بھی انسان کو کچھ فائدہ نہیں دے سکتی انسان حیوان کا حیوان ہی رکھتا ہے ۔روزانہ ہم شہروں میں ٹریفک سگنلز پر ہزاروں پڑھے لکھے انسان دیکھتے ہیں جو قانون شکنی سرے عام کرتے ہیں تو اِس سے بھی یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ تعلیم میں شعور کا عنصر آجائے تو بامعنی بن جاتا ہے ۔

ایک دوسرے میں فرق ڈھونڈتے ڈھونڈتے آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے آج بھی پاکستانی خاندانوں کی پرانی رسوم ذاتوں پاتوں پہ یقین کا عنصر ختم نہیں ہوا ،خاندانیت،ذات سے باہر، زمین جائیداد نہ ہونے پر ،نام مقام مال نہ ہونے پر رشتے نہ کرنا عام رواج ہے جسکا قوم کو سو فیصد نقصان ہو رہا ہے جسکی سمجھ ہم عام لوگوں کو نہیں لگتی۔ہر چھوٹی سے چھوٹی غلطی ملک کے لیے ایک کانٹا ثابت ہوتی ہے جسکا ہمیں علم نہیں ہوتا۔

مغربی ممالک نے اصل محنت ہی چھوٹے طبقے سے شروع کی ہے۔وہاں بات ہی عام انسان کے حقوق سے شروع ہوتی ہے ،جہاں انسانی زندگی کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جہاں چرند پرند حتی کہ بے جان اشیا ء کی بھی تعظیم و حقوق مقرر ہیں تو پھر وہاں انسان کی بے توقیری تو بہت دور کی بات ہے ۔مغربی ممالک و امارات کا ڈیتھ ریٹ دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ قابل رشک ہے پھر ہمیں اپنی کوتاہی کہاں نظر آتی ہے؟ہماری کوتاہی ہمارے نظم و ضبط میں ہے ۔

میٹروبس سٹیشن پہ اگر ایک شحض نے تھوکنا ہے تو وُہ وہاں ہی تھوک دے گا جس سے گزرگاہ کی خوب صورتی کم ہو گی اور جراثیم بھی پیدا ہونگے اور دیکھنے والے بھی یہ تجربہ عام کریں گے یہاں اگر وُہ غور کرے تو وہاں کوڑا دان بھی موجود ہونگے اگر وُہ تھوڑی کوشش کر کے کوڑا دان میں تھوک دے تو اِس سے اُس کی اپنی زندگی میں نظم و ضبط بھی آئے گاگزر گاہ کی خوب صورتی بھی متاثر نہ ہوتی اور جراثیم بھی نہ پھیلیں گے پھر دیکھنے والوں کے لیے بھی سبق ہوگاخیر ہم اپنا ادارک خود کر لیں۔

انسان کو اِس کے عہدے کے مطابق اچھائی کو فروغ دینا چاہیے جیسے انسپکٹر پولیس کو اپنے عہدے کے مطابق اچھائی کا کام کرنا چاہیے خود کو تھانے میں ایک نمونہ کے طور پر متعارف کروانا چاہیے رشوت کے نظام کو بند کروا کے تھانے میں دیگرملازمین کے لیے رشوت ستانی کا سامان بند کرنا چاہیے ۔شریف انسانوں کی توقیر کا حد درجہ خیال اُن کی آواز کی قدر کرنا عین عہدے سے وفا ہے ۔

ایک جج کو شعبہ عدل میں سیدنا عمر کی ذات اقدس سے سیکھ کر فیصلہ دینا چاہیے ۔کورٹ روم میں وکلا ء کے لیے ایک نمونہِ اچھائی ہونا نہ صرف جج صاحب کی خود کی تعظیم بلکہ شعبہ عدل و ملک ِعظیم کی تعظیم ہوگا۔اِسی طرح ممبر پارلیمانی وقومی اسمبلی اور وزیر کو حدود و قیود کا خیال رکھنا اور خود کو تخت کا مالک سمجھنے سے زیادہ وقت عوامی فلاح کے لیے صرف کرنا چاہیے ۔

کیونکہ ہمیں پہلے اپنے اند ر شعور کو بیدار کرنا ہے پھر اِسے آگے منتقل کرنا ہے ۔یہ بھی شعور کا ہی مفقود ہونا ہے کہ ہم نے اپنے ملک کے لیے نا لائق حکمران منتخب کیے ۔نئے چہروں کو لانا ،پڑھے لکھے با ذوق باضمیر اشخاص کا اسمبلی میں آنا قوم کے لیے فلاح کی وعید ہے مگر قوم نے ہر دفعہ یہ حق خود سلب کروایا۔ملک عظیم کے باسیوں کو اپنا حق آج بھی معلوم ہے اگر وُہ خود میں شعور پیدا کریں اور آج بھی استحصال کے خلاف کھڑے ہو جائیں تو بے وفا اور خود غرض حکمرانوں کی کیا مجال کہ عوامی جذبات کے منافی کوئی تعمیر یا فیصلہ عمل میں آئے ۔

مگر ہم نے محکومیت کا چناو خود کر رکھا ہے ۔انسان کی قدر کو سمجھا جائے ،انسان کو اہمیت دی جائے باوفا اشخاص کو موقع دیا جائے ۔کامیاب پاکستان کے لیے ہر انسان محنت کرے تو وُہ ایک وزیر اعظم سے زیادہ فائدہ مند ہے۔کلرک اپنی ذمہ داریاں سمجھ جائے تو وُہ وزیر تعلیم سے زیادہ فائدہ مند ہے ،پولیس کانسٹیبل اپنی ذمہ داری پورے حق سے ادا کر دے تو وُہ آئی جی سے بڑھ کے فائدہ مند ہے مگر بات سمجھ کی ہے جسے خودی کا مقام سمجھ آ گیا وُہ مُراد پا گیا ۔ڈاکٹر اقبال  نے کیا خوب کہا کہ ”خودی کو کر بلند اِتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے ۔۔خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے“ ۔اُمید ہے ہم اپنا یہ حق ضرور استعمال کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :