حسین رضی اللہ عنہ کا ترک حج ۔۔مسلمانوں کا طواف کعبہ

ہفتہ 22 اگست 2020

Waqar Haider

وقار حیدر

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے ۔۔ مسلم امہ میں اس ماہ کی تعظیم و تکریم کی دو بڑی وجوہات ہیں ایک تو یہ مہینہ حرمت کے 4 ماہ میں شامل ہے جس میں جنگ و جدل کو حرام قرار دیا گیا تھا۔۔ لیکن اسکے باوجود 61 ہجری کے اسی ماہ میں واقعہ کربلا رونما ہوا اور خانوادہ خاتم النبین کو نینوا کے صحرا میں تہہ تیغ کر دیا گیا ۔۔۔ اس واقعہ کو 1442 سال گزر چکے ہیں۔

دنیا بھر میں آج بھی اس واقعہ کی یاد کو مناتے ہیں اور محرم کے پہلے 10 دن بالخصوص ایام غم کے طور پر منائے جاتے ہیں۔
حسین ابن علی سے مدینہ میں بیعت طلب کی گئی ، انکار پر مدینہ میں حسین کیلئے رہنا تنگ کر دیا گیا ، قافلہ حسینی 28 رجب کو مدینہ چھوڑ کر مکہ میں آ کر قیام پذیر ہوا ، حسین ابن علی نے فرمایا (میں سرکشی اور جدال و قتال کے ارادے سے نہیں نکل رہا ہوں اور نہ ہی میرا مقصد فساد پھیلانا یا کسی پر ظلم کرنا ہے بلکہ میں تو اپنے نانا کی اُمت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں۔

(جاری ہے)

میری غرض فقط امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اپنے نانا اور بابا کی پیروی ہے۔ پس جو کوئی اللہ کی خاطر میری دعوت قبول کرتا ہے تو اللہ کا حق سب پر فائق ہے اور جو میری دعوت کو قبول نہیں کرے گا تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ اللہ میرے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کرے اور اللہ ہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے) چونکہ بیعت کے انکار کے بعد یزید کو حسین ابن علی کھٹک رہے تھے اور ڈر بھی تھا کہ حسین قیام کیلئے ہی نہ اٹھ کھڑے ہوں اس لیے اقتدار کے ایوانوں میں فیصلہ ہوا کہ حرم خُدا میں ابن رسول اللہ کو قتل کر دیا جائے۔


حاکم وقت کے گماشتے امن کے لباس میں تلواریں اور خنجر چھپائے بیت اللہ میں ایام حج کے موقع پر وارد ہوتے ہیں ۔ حسین رضی اللہ عنہ نے 8 ذوالحجہ کو احرام کھول دیا ، حج کو موقوف کیا اور حرم خدا کی حرمت کی خاطر مکہ سے روانہ ہو گئے ۔ حرم خدا کی عزت بچ گئی ،لیکن مکہ میں موجود مسلمانوں نے یہ تک نہ پوچھا کہ آخر کیوں حسین حج کو ترک کر کے اتنی عظیم عبادت کو چھوڑ کر خداکے گھر سے منہ موڑ کر جا رہے ہیں ؟
عجیب بات ہے کہ نواسہ رسول اپنے خانوادہ کے ساتھ حج ترک کر رہے تھے اور مسلمان چپ چاپ کعبہ کے گرد چکر لگانے میں مصروف رہے
مولانا مودودی سے سوال کیا گیا کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہ کی اکثریت نے یزید کی بیعت کرلی تھی۔

پھر امام حسین رضی اللہ عنہ نے یہ راستہ کیوں اختیار نہ کیا۔ مولانا مودودی نے اس سوال کا جواب بہت عمدگی سے اور فکر کشا پیرائے میں دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: بعض لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ نے تو بیعت کرلی تھی، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کیوں نہ کی اور وہ ان کو مطعون (طعنہ دیتے ہیں) کرتے ہیں، حالانکہ جب مسلمان حکومت پوری طاقت سے قائم ہو اور اس کے خلاف اٹھنا ہما شما( ایرے غیرے) کا کام نہیں۔

صرف وہ اٹھ سکتا ہے جو فیصلہ کرچکا ہو کہ وہ اٹھے گا خواہ کچھ ہو جائے، جو لوگ ایسی بات کہتے ہیں، ان کو صحابہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے صفائی پیش کرنی چاہیے نہ کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مطعون کرنا۔ اٹھنے والے سے صفائی پیش کرنے کا کیا موقع ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی پوزیشن صاف کی جاسکتی ہے کہ ہر شخص کا یہ کام نہیں تھا۔
سادے الفاظ میں مودودی صاحب کہ رہے تھے جب حسین رضی اللہ عنہ نے بیعت سے انکار کیا تھا تو صحابہ کرام کس بنا پر حسین کے ساتھ اس انکار میں شامل نہیں ہوئے۔

لیکن ساتھ ہی توجیہہ پیش کر دی کہ یہ کام ہر کسی کا نہیں ہے۔
مولانا اسحاق مرحوم کا ایک ویڈیو کلپ موجود ہے ،12 خلفاء کے سوال کے جواب اور خاص طور پر خلفائے آئمہ کے حوالے سے فرما رہے تھے کہ وہ تمام اپنے دور کے متقی و پرہیزگار لوگ تھے لیکن چونکہ انکو حکومت نہیں ملی اس لیے انکو خلیفہ نہیں مانا جا سکتا ۔۔ کاش وہ زندہ ہوتے تو ان سے پوچھنا تھا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھی حکومت نہیں ملی کیا وہ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں یا نہیں ؟
جے کر دین علم وچ ہوندا سر نیز ے کیوں چڑھدے ہُو
اٹھارہ ہزار جو عالم باہو اَگے حسین دے مردے ھُو
اس ساری صورتحال کے پیش نظر سوال اٹھتا ہے کہ دینداری کیا ہے ؟ حج ترک کے احرام کھول دینا ، یا حج جاری رکھنا ؟ یزید کی بیعت کا انکار کرنا یا خاموشی اختیار کرنا ؟ مسند دین پر بیٹھے دین کے باغی کا ساتھ دینا یا اس کے خلاف قیام کرنا ؟ ہر برسراقتدار کو ولی الامر مان لینا یا حقیقی ولی الامر کی تلاش اور اسکی پیروی کرنا؟
یقینا ان سوالات کے جواب آپ کے سامنے یزیدیت اور حسینیت کے درمیان فرق کو واضح کر دیں گے ، صراط مستقیم بھی نظر آئے گی اور حق بھی آشکار ہو جائے گا۔

اور اس سے بڑھ کر حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کا قیام سمجھ آجائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :