
حسین رضی اللہ عنہ کا ترک حج ۔۔مسلمانوں کا طواف کعبہ
ہفتہ 22 اگست 2020

وقار حیدر
حسین ابن علی سے مدینہ میں بیعت طلب کی گئی ، انکار پر مدینہ میں حسین کیلئے رہنا تنگ کر دیا گیا ، قافلہ حسینی 28 رجب کو مدینہ چھوڑ کر مکہ میں آ کر قیام پذیر ہوا ، حسین ابن علی نے فرمایا (میں سرکشی اور جدال و قتال کے ارادے سے نہیں نکل رہا ہوں اور نہ ہی میرا مقصد فساد پھیلانا یا کسی پر ظلم کرنا ہے بلکہ میں تو اپنے نانا کی اُمت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں۔
(جاری ہے)
حاکم وقت کے گماشتے امن کے لباس میں تلواریں اور خنجر چھپائے بیت اللہ میں ایام حج کے موقع پر وارد ہوتے ہیں ۔ حسین رضی اللہ عنہ نے 8 ذوالحجہ کو احرام کھول دیا ، حج کو موقوف کیا اور حرم خدا کی حرمت کی خاطر مکہ سے روانہ ہو گئے ۔ حرم خدا کی عزت بچ گئی ،لیکن مکہ میں موجود مسلمانوں نے یہ تک نہ پوچھا کہ آخر کیوں حسین حج کو ترک کر کے اتنی عظیم عبادت کو چھوڑ کر خداکے گھر سے منہ موڑ کر جا رہے ہیں ؟
عجیب بات ہے کہ نواسہ رسول اپنے خانوادہ کے ساتھ حج ترک کر رہے تھے اور مسلمان چپ چاپ کعبہ کے گرد چکر لگانے میں مصروف رہے
مولانا مودودی سے سوال کیا گیا کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہ کی اکثریت نے یزید کی بیعت کرلی تھی۔ پھر امام حسین رضی اللہ عنہ نے یہ راستہ کیوں اختیار نہ کیا۔ مولانا مودودی نے اس سوال کا جواب بہت عمدگی سے اور فکر کشا پیرائے میں دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: بعض لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ نے تو بیعت کرلی تھی، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کیوں نہ کی اور وہ ان کو مطعون (طعنہ دیتے ہیں) کرتے ہیں، حالانکہ جب مسلمان حکومت پوری طاقت سے قائم ہو اور اس کے خلاف اٹھنا ہما شما( ایرے غیرے) کا کام نہیں۔ صرف وہ اٹھ سکتا ہے جو فیصلہ کرچکا ہو کہ وہ اٹھے گا خواہ کچھ ہو جائے، جو لوگ ایسی بات کہتے ہیں، ان کو صحابہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے صفائی پیش کرنی چاہیے نہ کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مطعون کرنا۔ اٹھنے والے سے صفائی پیش کرنے کا کیا موقع ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی پوزیشن صاف کی جاسکتی ہے کہ ہر شخص کا یہ کام نہیں تھا۔
سادے الفاظ میں مودودی صاحب کہ رہے تھے جب حسین رضی اللہ عنہ نے بیعت سے انکار کیا تھا تو صحابہ کرام کس بنا پر حسین کے ساتھ اس انکار میں شامل نہیں ہوئے۔ لیکن ساتھ ہی توجیہہ پیش کر دی کہ یہ کام ہر کسی کا نہیں ہے۔
مولانا اسحاق مرحوم کا ایک ویڈیو کلپ موجود ہے ،12 خلفاء کے سوال کے جواب اور خاص طور پر خلفائے آئمہ کے حوالے سے فرما رہے تھے کہ وہ تمام اپنے دور کے متقی و پرہیزگار لوگ تھے لیکن چونکہ انکو حکومت نہیں ملی اس لیے انکو خلیفہ نہیں مانا جا سکتا ۔۔ کاش وہ زندہ ہوتے تو ان سے پوچھنا تھا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھی حکومت نہیں ملی کیا وہ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں یا نہیں ؟
اٹھارہ ہزار جو عالم باہو اَگے حسین دے مردے ھُو
یقینا ان سوالات کے جواب آپ کے سامنے یزیدیت اور حسینیت کے درمیان فرق کو واضح کر دیں گے ، صراط مستقیم بھی نظر آئے گی اور حق بھی آشکار ہو جائے گا۔ اور اس سے بڑھ کر حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کا قیام سمجھ آجائے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
وقار حیدر کے کالمز
-
فحش اور فحاشی کی نئی تعریف
جمعہ 26 فروری 2021
-
منشیات اور تعلیمی ادارے
جمعہ 4 دسمبر 2020
-
مجھے انگریزی نہیں آتی
جمعرات 3 دسمبر 2020
-
دردنہیں بانٹا جا سکتا جس کو ہوتا ہے وہی جانتا ہے
اتوار 18 اکتوبر 2020
-
حسین رضی اللہ عنہ کا ترک حج ۔۔مسلمانوں کا طواف کعبہ
ہفتہ 22 اگست 2020
-
پاکستانی میڈیا ۔۔خبر سے خواہش تک
اتوار 3 مئی 2020
-
اشفاق احمد کے بعد عرفان صدیقی۔۔۔دہشتگرد کون استاد یا پولیس؟
پیر 29 جولائی 2019
وقار حیدر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.