پاکستانی میڈیا ۔۔خبر سے خواہش تک

اتوار 3 مئی 2020

Waqar Haider

وقار حیدر

پاکستانی عوام بھی عجب دماغ کے غضب ذہین ہیں ۔۔ سارا دن ٹی وی پر نیوز چینلز دیکھتے ہیں اور اسی تناسب سے میڈیا کو گمراہ کن، غلط ، بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ بھی قرار دیتے ہیں۔
وجہ صرف اتنی کہ ان کو خبر نہیں ۔۔۔خبر کے لبادے میں لپٹی ہوئی اپنی خواہش آن ائیر چاہیئے۔ تنقید حکومت پر ہو یا پھر اپوزیشن جماعتوں پر۔۔۔عوام کے ایک دھڑے کو لگتا ہے کہ تنقید کا براہ راست ہدف انکی جماعت ہے
لیکن میڈیا کے اندر کیا ہوتا ہے؟ یا کیا ہو رہا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا ، ہمارے ایک سینئر کہتے تھے میڈیا ایک نشہ ہے جس کو ایک دفعہ لگ جاتا ہے اسکو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔

اور یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ صحافت وہ کنواں ہے جس میں جو ایک بار چھلانگ لگا دے۔۔۔باقی عمر وہ اسی کنویں میں گزار دیتا ہے۔

(جاری ہے)


چلیئے آج آپکو میڈیا کی اندرونی کہانی سناتے ہیں
میڈیا کی خصوصیت یہ ہے کہ آپکو کسی ڈگری وگری کی ضرورت نہیں جس کا دل چاہے جس بھی فیلڈ سے ہو جب چاہے صحافی بن جائے یا خود کو صحافی کہلوانا شروع کر دے ۔۔ میڈیا کیلئے کوئی اکیڈمی بھی نہیں ہے جو کسی بھی نئے نویلے صحافی یا رپورٹر کو میڈیا جاب سے متعلق آگاہ کرے ۔

میڈیا کے اصول بتائے یا صحافتی اخلاقیات کا سبق ازبر کرائے۔
رہی بات خبریں اکٹھی کرنے کی تو ڈائریکٹر نیوز سے لیکر رپورٹر تک سب کی اپنی اپنی پسند ہے ، ڈائریکٹرنیوز کی کوشش ہوتی ہے خبر کو ایسا رنگ دیا جائے جیسا وہ چاہتے ہیں رپورٹر اپنے ایجنڈے پر ہوتے ہیں ، رپورٹر نے اپنی ڈور سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں دے رکھی ہے اور سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے رپورٹر بنا رکھے ہیں ،مثال لے لیجئے نیا پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو تحریک انصاف کی بیٹ کرنے والے رپورٹر کو وزیراعظم کی بیٹ دینے کا کہا گیا اور ایسا ہی ہوا لیکن اسکے باوجود حکومت میڈیا سے خوش نہیں ۔

اسی طرح میڈیا مالکان کے بھی اپنے اپنے انٹرسٹس ہیں ، عوام کو بھی پتا ہے کہ کس جماعت کی خبر کیلئے کس چینل کی نیوز سننا ہے۔
اب جب یہ سب ہوگا تو میڈیا کریڈبلٹی پر سوالیہ نشان نہیں آئے تو اور کیا آئے گا؟
نجی نیوز چنیل کی اسائمنٹ ایڈیٹر کہتی ہیں میڈیا صحافت سے زیادہ بزنس بن چکا ہے۔ مالکان یا سینئر پوسٹ پر بیٹھے بعض منافق افراد اپنے مفادات کی خبر چلواتے یا رکواتے ہیں پھر چاہے وہ جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کردیں یا پھر ثبوت ہوتے ہوئے بھی سچ کو سامنے آنے نہ دیں۔


ایک دوسرے نجی ٹی وی چینل کی اسائمنٹ ایڈٹر کہتی ہیں کون کہتا ہے کہ میڈیا آزاد ہے ؟؟؟ میڈیا میں کام کرنے والے کو پتہ ہے کہ بہت سی خبریں کہہ کر چلوائی جاتی ہیں، یا ادارے کی پالیسی کے مطابق چلتی ہیں، جو مالکان بناتے ہیں، وہ بھی کسی نہ کسی ادارے یا پاڑتی کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں، تو خبر وہ چلائی جاتی ہے جس کی ڈیمانڈ ہو، اور رہی بات اینکرز کی ان کے تو اپنے مفادات ،اپنی دوستیاں، مراعات اور لفافے ہیں ۔


نیا پاکستان میڈیا کیلئے انتہائی مضر ثابت ہوا ، میڈیا انڈسٹری سے تقریبا 30 فیصد تک ورکرز کو فارغ کیا جا چکا ہے، باقی ماندہ کی تنخواہیں کاٹی جا چکی ہیں اور اس کے علاوہ دیگر سہولیات بھی چھین لی گئیں ہیں۔
آئے روز کسی نہ کسی چینل سے ورکرزکو نکال باہر کیا جا رہا ہے اور کوئی پوچھنے تک والا نہیں ، نہ کوئی احتجاج کرنے والا ہے اور رہی بات خبر کی تو انکی اپنی خبر چلانے والا کوئی نہیں ہے ۔

مالکان کے مفادات کا ٹکراؤ کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اسی بنا پر عوام، حکومت، اپوزیشن اور ادارے میڈیا کو اپنے خلاف تصور کرتے ہیں اور میڈیا کے حق میں ضرورت کے مطابق بیانات داغتے رہتے ہیں
صحافت کے عالمی دن کے موقع پر پیغام میں وزير اطلاعات شبلي فراز کہتے ہیں  حکومت اظہار رائے کے بنیادی، آئینی اور قانونی حق پر یقین رکھتی ہے، ذمہ دار پریس معاشرے کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے
نجی چینل کے رپورٹر عدیل سرفراز نے کہا میری رائے میں سوال میڈیا کی آزادی نہیں بلکہ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے اداروں کی آزادی کا ہے۔

کیونکہ جب تک ان اداروں پر سول حکومت کا کنٹرول رہتا ہے میڈیا کو مشکلات درپیش ضرور ہوتی ہیں تاہم آزادی اظہار رائے سلب نہیں ہوتا۔ ہم نے دیکھا ہے جب جب ملکی سلامتی کے اداروں نے (وسیع تر ملکی مفاد) میں خبر اور سچ کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے تب تب میڈیا کو آزادی سے کام کرنے میں دشواریاں ضرور پیش آئی ہیں۔
اب زیادہ تر لوگ ڈیجیٹل ہونا شروع ہو گئے ہیں ، اپنے بلاگز ، وی لاگز، یوٹیوب چینلز اور پھر ٹویٹر اور فیس بک پر طرح طرح کی پوسٹیں ، گھر میں بیٹھے ہی چینل بنا لیے اور سوشل میڈیا پر ہی صحافی بن گئے ہیں۔

وی لاگز اور ڈیجیٹل چینلز پر بھی سب کا اپنا اپنا ایجنڈا جاری و ساری ہے
میڈیا کو آئے روز ایم کیو ایم سمجھ کر دیوار کیساتھ لگایا جا رہا ہے، بلکہ یوں کہہ لیجئے جو میڈیا کے بل بوتے پر اقتدار میں آئے وہی میڈیا کی جڑ کاٹ رہے ہیں ، حکومت ، فوج، پولیس، محکمے ، وزارتیں اور دیگر عوامی تنظیمیں سب ہی نے اپنے پی آر اوز رکھے ہیں اور ان سب کی کوشش ہوتی ہے کہ میڈیا کو خبر دیکر من و عن چلوائی جائے، مطلب صحافی نہ ہوا پی آر او  ہو گیا ، سب کو سب اچھا ہے کہ خبر چلوانی ہے
نجی نیوز چینل کے رپورٹر نورالامین دانش کہتے ہیں’’ بدقسمتی سے پاکستان میں میڈیا مالکان کے مفادات کو آزادی صحافت سے جوڑا جاتا ہے۔

موجودہ حکومت نے سینسر شپ کی بدترین مثال قائم کی ہے تاہم بہت سی پابندیاں ایسی ہیں جو کہ میڈیا نے خود سے اپنے اوپر سوار کر لی ہیں ۔۔‘‘۔
ڈیجیٹل میڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک خاتون صحافی کا کہنا تھا کہ دیگر اداروں کی طرح میڈیا میں بھی بہت سے ایسے افراد ہیں جو ٹیلنٹ اور کام سے زیادہ چاپلوسی کی بنیاد پر ملازمتیں دیتے ہیں اور ترقی کے حصول کا راستہ بھی چاپلوسی کے پل سےہی گزرتا ہے۔


میڈیا مالکان نے تو رپورٹرز اور صحافیوں کیساتھ پٹرول والا حال کر رکھا ہے۔ پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو ہر چیز مہنگی لیکن جب کم ہوتی ہے تو کچھ بھی سستا نہیں کیا جاتا، میڈیا میں بھی جب حالات زیادہ خراب ہوتے ہیں تو تنخواہوں میں کٹوتی کر لی جاتی ہے اور دیگر سہولیات کاٹ لی جاتی ہیں لیکن جب حالات بہتر ہو جاتے ہیں تو واپس کچھ نہیں ہوتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :