جماعت اسلامی کی سیاسی ترجیحات

بدھ 2 جولائی 2014

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

سید منور حسن کے بعد جماعت اسلامی کی سیاسی ترجیحات کیا ہیں ؟۔یہ وہ سوال ہے جس کا جواب موجودہ سیاسی منظر نامے میں جماعت اسلامی کے خاموش کردار میں تلاش کیا جا رہا ہے ۔ سید منور حسن کی سیاست اور امارت سے سبکدوشی اور جناب سراج الحق کی نو منتخب امارت سے واقفان حال کو بہت امیدیں وابسطہ تھیں ۔ اراکین جماعت اسلامی کا خیال تھا کہ سراج الحق جماعت اسلامی کو جدید خطوط پر استوار کریں گے اور عرصہ دراز سے جماعت کی اہم زمہ داریوں پر تعینات زمہ داران کی بجائے نئے افراد کو جماعت کے اہم مناصب تفویض کئے جائیں گے ۔

تاہم ان خیالات اور خواہشات کے حامی افراد کو اس وقت شدید حیرت سے دوچار ہونا پڑا جب نو منتخب امیر نے جناب لیاقت بلوچ کو اگلے پانچ سال کیلئے اپنا جنرل سیکرٹری مقرر کر دیا ۔

(جاری ہے)

جماعت اسلامی میں کسی بھی بڑی تبدیلی کے خواہش اور امید جناب لیاقت بلوچ کے تقرر سے تقریباََ ختم ہوگئی جبکہ نائب امراء کے تقرر نے رہی سہی کسر پوری کر کے خواہشمندان تغیر کو یہ پیغام دیا کہ کچھ بھی ہو سراج الحق جماعت اسلامی کے تنظیمی ڈھانچے میں کسی نمایاں تبدیلی کے حق میں نہیں ہیں ۔


یہاں تک تو جماعت اسلامی کی اندورنی سیاست اور تنظیمی معاملات کا زکر ہے جبکہ سیاسی تجزیہ نگار متجسس ہیں کہ جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر پاکستان کی قومی سیاست میں کس نوعیت کا کردار ادا کرنے کے خواہشمند ہیں ۔ یا موجودہ حالات میں جماعت اسلامی کی سیاسی ترجیحات کیا ہونگی ؟ ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان انتخابی دھاندلی کے خلاف نگر نگر گھوم رہے ہیں اور واشگاف الفاظ میں حکومت کو للکار رہے ہیں جبکہ خیبر پختونخواہ میں شراکت اقتدار جماعت اسلامی مرکزی حکومت کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے ۔

عمران خان کے بقول دھاندلی کو بے نقاب کرنا ،انتخابی اصلاحات کا عمل میں آنا اور الیکشن کمیشن کی تجدید کے مطالبے کے عوض اگر حکومت ختم ہو تی ہے تو ہو جائے جبکہ جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر کہتے ہیں وہ کسی بھی صورت میں جمہوری عمل اور جمہوری اداروں کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے ۔بلکہ جناب سراج الحق کا کہنا ہے کہ اگر غیر آئینی طریقے سے مرکزی حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی تو وہ مزاحمت کریں گے اور حکومت کو بچانے کیلئے میدان میں آئیں گے ۔

کیا عجب ہے ایک ہی صوبے میں شراکت اقتدار دو سیاسی جماعتیں یعنی جماعت اسلامی اور تحریک انصاف مرکزی سیاست میں جداگانہ طرز سیاست کی حامل ہیں ۔جناب سراج الحق کا جماعت اسلامی کی مرکزی امارت کے ساتھ ساتھ صوبہ خبر پختونخواہ کی وزارت خزانہ کا قلمدان پنے پاس رکھنا امیر جماعت کے سیاسی رحجان کی جانب واضح اشارہ ہے ۔ ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ جناب سراج الحق جب صوبہ خیبر پختونخواہ کے امیر منتخب ہوئے تھے وہ تب بھی متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے وزیر خزانہ تھے ۔

تب انہوں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا اس کی وجہ انہوں نے بیان کی تھی کہ وہ وزارت کے ساتھ جماعتی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف نہیں کر پائیں گے لہذا وہ وزیر نہیں محض امیر رہیں گے ۔ اب جبکہ جناب سراج الحق کے پاس جماعت اسلامی پاکستان کی امارت ہے تو تنقیدی جائزہ لینے والے استفسار اٹھاتے ہیں کہ اگر وزیر ہوتے ہوئے صوبہ کی امارت سے انصاف نہیں ہو سکتا تو وزیر رہتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کے ساتھ کیونکر انصاف ہو سکتا ہے ؟۔


واپس پہلے جملے پرآتے ہیں ۔ سید منور حسن کے بعد جماعت اسلامی کی سیاسی ترجیحات کیا ہیں ؟۔ اس میں تردد نہیں سید منور حسن ایک درویش صفت انسان تھے ان کے نزدیک دنیا کے جاہ و مال کی کوئی وقعت تھی اور نہ اہمیت ۔ لہذا ان کے دور امارت میں ان کی ذات کا یہ پہلو جماعت اسلامی کی سیاسی ترجیحات پر بھی غالب رہا ۔ جناب سید منور حسن نے جماعت اسلامی کو اقتدار کی کشمش سے الگ رکھا اور ”کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق“کی عملی تصویر بنے رہے ۔

لہذا ان کے دور امارت میں جماعت اسلامی سیاسی تنہائی کا شکار ہوئی اور 2013ے کے عام انتخابات میں نمایاں کردار ادا کرنے سے معذور رہی ۔ جہاں تک جناب سراج الحق کا معاملہ ہے طبعیت کی نرمی اور مال و متاع سے بے نیازی ان کی شخصیت میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ میرے جیسے اکثر افرادجنہیں کسی نہ کسی حوالے سے جناب سراج الحق کے قریب رہنے کا موقع ملا ہے وہ آنکھیں بند کر کے تائید کر سکتے ہیں کہ سراج الحق ابن الدنیا نہیں ابن الآخرت ہیں ۔

ان خصوصیات کے باوجو د اس حقیقت کو مان لینے میں حرج نہیں کہ سراج الحق اقتدار کی سیاست کوناپسند نہیں کرتے ۔انہیں خود کو اورجماعت اسلامی کواقتدار میں رکھنامعیوب نہیں لگتا ۔ان کی شخصیت کے اس پہلو کو دیکھتے ہوئے میں پشین گوئی کر سکتا ہوں کہ جماعت اسلامی اب پاور پولٹیکس یعنی اقتدار کی سیاست کرے گی ۔ جماعت اسلامی کی یہ ترجیحات کب تک رہتی ہیں اس بابت قیاس کرنا قبل از وقت ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ فی الحال جناب سراج الحق اقتداری سیاست کے قائل ہیں ۔

ابھی تک واضح نہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ اپنے مطالبات کی عدم منظوری کے خلاف خیبر پختونخواہ حکومت ختم کرتے ہیں کہ نہیں لیکن اگر وہ جوش جذبات میں یہ انتہائی قدم اٹھا جاتے ہیں تو غالب گمان ہے کہ جماعت اسلامی تحریک انصاف کے ساتھ نہیں ہوگی ۔بلکہ ”نظام“کو بچانے کی خاطر مسلم لیگ (ن)اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ کھڑی ہو گی اور یہ محض اتفاق ہوگا کہ سیاسی نظام کو بچانے کی اس کشمکش میں امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ بن جائیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :